10 February, 2025

دالوں کا عالمی دن


 
دالوں کا عالمی دن

دنیا کے دوسرے خطوں کے مقابلے میں برصغیر میں دالوں کا سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ دال کو اکثر غریب شخص کی خوارک سمجھا جاتا رہا ہے۔ تاریخی لحاظ سےدالوں کا ذکر ہندوؤں کی ایک مقدس وید میں بھی ملتا ہے۔ اردو ادب میں دالون پر شاعری بھی کی گئی ہے جیساکہ
   
ایک لڑکی بگھارتی ہے دال
دال کرتی ہے عرض یوں احوال
(اسماعیل میرٹھی)
ٹپکے اُن پر رال برابر
گھر کی مُرغی دال پرابر
(شفیق خلش)
مونگ چھاتی پہ جو دلتے ہیں کسی کی دیکھنا
جوتیوں میں دال ان کی اے ظفرؔ بٹ جائے گی
(بہادر شاہ ظفر)
اسکے علاوہ بہت سے محاورے بھی مشہور ہیں جیساکہ دال میں کالا، دال نہ گلنا، یہ منہ اور مسور کی دال، آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہونا  یا پھر سندھیوں میں کہتے ہیں منھہ میں مونگ وغیرہ۔ ہمارے ہاں دال کی کئی ڈشز بھی ہیں، کچھڑی ہو یا، دال چاول یا دال چنا، چنے کی دال کا حلوہ، بھُنی دال، کڑاہی دال،  سبز مونگ کی دال، شامی کباب، حلیم، یا مسور کی دال کا شوربہ اور کئی ڈشز ہیں جو دال ملا کر بنتی ہیں، دال پالک، دال قیمہ، انڈا چنے کی دال، دال گوشت، وغیرہ۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کے پُلمین کے علاقے میں دالوں کا ایک تہوار بھی ہوتا ہے۔ نیشنل لینٹل فسٹیول نامی اس تہوار کا آغاز سنہ 1989 میں ہوا تھا اور اس میں 25 ہزار سے زیادہ لوگ شرکت کرتے ہیں اور لوگ یہاں اپنے اپنے انداز میں دالیں پکانے کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔

 دالوں نے ہمیشہ اپنا لوہا منوایا ہے اپنی غذائیت اور ذئقہ کے طفیل بوڑھوں اور بچٌوں میں یکساں مقبول رہی ہیں۔ یہ دالوں کا ہی کمال ہے کہ ہم صرف دو اجناس کو استعمال کر کے دنیا کے سادہ ترین کھانے جھٹ پٹ تیار کر لیتے ہیں، دال چاول یا دال روٹی، آپ کی مرضی جو کھائیں۔ ہمارے ہاں 
 مہمانوں کو دال پیش ہی نہیں کی جاتی  اور اگر گوشت والے پکوانوں کی بجائے دال پیش کرنا پڑ جائے تو لوگ ہچکچاتے تھے۔  دال کو لوگ غم کی علامت بھی سمجھتے ہیں اور کچھ لوگ جمع یا جمع کی رات کو دال پکانے سے گریز کرتے ہیں۔ اب تو دالوں کا علامی دن منایا جاتا ہے۔ 

ہر سال 10 فروری کو دنیا بھر میں عالمی یوم دال منایا جاتا ہے، جس کا آغاز 2013 میں اقوام متحدہ نے خوراک کی عدم تحفظ، غذائی قلت، اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیا۔ دس فیبروری دالوں کا عالمی دن کی بنیاد 2016  میں ڈالی گئی 
 جب کے  اقوام متحدہ نے دالوں کو پائیدار ترقی کے اہداف ایس جی ڈی کے حصول کا اہم ذریعہ قرار دیا ہے۔  فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن
 کی قیادت میں چلائی گئی بھوک کے خلاف جنگ کی مہم نے دالوں کی اہمیت کو اجاگر کیا-  سابق ایف اے او ڈائریکٹر جوزے گرازیانو دا سلوا  کے الفاظ میں: *"دالوں کی طاقت ان کے سائز میں نہیں، بلکہ ہماری دنیا کو بدلنے کی صلاحیت میں ہے۔  دالیں  سستی غذائیت سے بھرپور کھانے اور پروٹین کا ذریعہ ہیں۔  یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دالوں جیسے چنے، مسور، مونگ، اور مٹر میں وہ صلاحیت ہے جو نہ صرف غذائی قلت دور کرسکتی ہے بلکہ پائیدار زراعت کو بھی فروغ دے سکتی ہے۔  

دالوں کے عالمی منظرنامے میں پاکستان ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ چنے اور مسور جیسی فصلیں کاشت کرنے کے باوجود، ملک اپنی ضرورت کا 50% سے زائد دال درآمد کرتا ہے۔ یہ تضاد کیوں؟  
1.  محدود پیداوار: 24 کروڑ کی آبادی کے لیے سالانہ 500,000 میٹرک ٹن دالیں درآمد کی جاتی ہیں جن کی لاگت 1.2 ارب ڈالرہیں۔  
2. پانی کے بحران: چاول اور گندم جیسی فصلیں 43% زیادہ پانی استعمال کرتی ہیں، جبکہ دالیں کم پانی اور کم کھاد پر پنپ سکتی ہیں۔    
4. غذائی قلت: پاکستان میں 5 سال سے کم عمر کے 40% بچے کم غذائیت کا شکار ہوتے ہیں، جبکہ دالیں آئرن، زنک اور پروٹین کا سستا ذریعہ ہیں۔  
پاکستان کے لیے دالوں کی پیداوار بڑھانا محض معاشی مسئلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اس کے لیے درکار اقدامات کرنے ہونگے جیساکہ 
خشک سالی برداشت کرنے والی اقسام (جیسے "نیاب-2016" چنا) کو متعارف کروانا،  
سبسڈیز کا صحیح استعمال،  
 کسانوں کو تربیت دینا 
 کولڈ اسٹوریج یونٹس قائم کرنا   
     
 پاکستان کو چاہیے کہ
 دالوں کی برآمدات بڑھانے کے لیے معاہدے کریں۔  
زرعی تحقیق کے اداروں (جیسے  کو فنڈز دیں۔  
صارفین کو سستی دالوں تک رسائی یقینی بنائیں۔  

 دالوں کا عالمی دن صرف ایک علامت نہیں، بلکہ ہمیں عملی اقدامات کی ترغیب دیتا ہے۔ ہر شہری کو چاہیے کہ اپنی خوراک میں دالوں کو شامل کرے، کسانوں کو سپورٹ کرے، اور پائیدار مستقبل کی بنیاد رکھے۔ یہ عاجز دانے ہی ہماری نسلوں کو بھوک اور موسمیاتی تباہی سے بچا سکتے ہیں۔

09 February, 2025

خودشناسی


  

خود شناسی   

انسانی زندگی خود کی دریافت اور ترقی کا ایک مسلسل عمل ہے۔ ہم ایک پیچیدہ دنیا میں پیدا ہوئے ہیں، جہاں اندرونی اور بیرونی چیلنجز ہمیں نکھارتے اور ہمارے اوپر اثر انداز ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ قدرتی طور پر خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ اپنی ہی سوچ اور رویوں کے جال میں پھنسے رہتے ہیں اور دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

خود پسندی   

آپ کے کچھ رویے آپ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں اور دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان میں ایک اہم رویہ  خود غرضی  ہے، جس میں انسان صرف اپنی خواہشات اور ضروریات کو ترجیح دیتا ہے اور دوسروں کے احساسات کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہ سوچ کہ "میری بات ہی سب سے زیادہ اہم ہے" یہ سوچ کامیاب زندگی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے اور دوسروں کی رائے کو نظر انداز کرنے کا سبب بنتی ہے۔  

ذمیداری کا فقدان

ذمہ داری سے گریز بھی ایک عام مسئلہ ہے، جس میں انسان اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پر ڈال دیتا ہے۔ یہ رویہ سیکھنے اور بہتری کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے، کیونکہ جب تک ہم اپنی غلطیوں کو قبول نہیں کریں گے، ہم ان سے سیکھ نہیں سکتے۔  

عدم تحفظ

کچھ افراد میں دوسروں پر قابو پانے کی خواہش  بھی دیکھی گئی ہے، جو عدم تحفظ کے احساس اور ہر چیز کو اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش سے جنم لیتی ہے۔ اس سے نہ صرف خود  کے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ دوسرے بھی اس کنٹرول کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں رشتوں میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ خود کو محفوظ رکھنے کیلئے  جذباتی بلیک میلنگ، ڈر پیدا کرنا اور دوسروں کو نقصان پہنچانے گریز نہیں کرتے۔   

 منفی سوچ

منفی رویہ بھی ذاتی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مستقل طور پر شکایت کرنا، ہر چیز میں مایوسی تلاش کرنا اور ہر موقعے پر منفی پہلو کو دیکھنا ایک زہریلا ماحول پیدا کرتا ہے۔ یہ نہ صرف انسان کے فیصلوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ تخلیقی صلاحیتوں کو بھی محدود کر دیتا ہے اور تعلقات کو نقصان پہنچاتا ہے۔  

 عدم اعتمادی 

جب انسان دوسروں کے جذبات کو نظر انداز کرتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہمدردی کی کمی لوگوں کو دور کر دیتی ہے اور سچے تعلقات بننے نہیں دیتی۔ اسی طرح،  جھوٹ بولنا اور وعدے توڑنا اعتماد کو ختم کر دیتا ہے، جس سے رشتے کمزور ہو جاتے ہیں اور زندگی میں مایوسیاں پیدا ہوتی ہیں۔  

 شکایت اور بے عملی   

کچھ افراد  ہمیشہ خود کو مظلوم سمجھتے ہیں، جو دراصل توجہ حاصل کرنے اور ہمدردی بٹورنے کی لاشعوری کوشش کرتے ہیں۔ یہ رویہ خود ترسی کو جنم دیتا ہے اور انسان مایوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح،  ہر چیز میں تنقید کرنے  کی عادت بھی دوسروں کو دور کر دیتی ہے اور منفی سوچ کو مزید بڑھاوا دیتی ہے۔ ایسے لوگ عملی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اس طرح ان کی ترقی بھی رک جاتی ہے۔  

جمودیت

 ذاتی ترقی سے بے رخی  اور  نئے خیالات کو اپنانے سے انکار بھی ایک عام مسئلہ ہے۔ جو لوگ سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کے عمل سے دور رہتے ہیں، وہ جمود کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروئے کار نہیں لا پاتے۔ ایسے لوگ نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے ڈرتے ہیں اور ان کے سیکھنے کی صلاحیت کو زنگ لگ جاتا ہے۔  

معذوری کے حامل افراد

 سماجی منفی سماجی رویئے معذور کے حامل افراد کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، جو خوداعتمادی میں کمی، اور خود کمتر سمجھنے جیسے منفی جذبات کو بڑھاوا دیتی ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کے لیے تعلقات بنانے اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مندرجہ بالا نفسیاتی رویئے جنم لے سکتے ہیں۔ اور ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ یہ ایک ایسا چکر بن جاتا ہے جہاں امتیازی سلوک معذوری کے حامل افراد کو مزید تنہائی اور محدود مواقع کی طرف دھکیل دیتے ہیں، جس سے سماج میں پہلے سے موجود غلط تصورات مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں، ان کا ترقی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔اسلیے معذوری کے حامل افراد کی زندگی کا سفر، صبر، ہمت اور مستقل مزاجی کا تقاضا کرتا ہے، اس کے نتیجے میں ایک بہتر، مطمئن اور کامیاب زندگی گذار سکتے ہیں۔  

Content Warning: This post contains discussions of disability rights and assitive technologies. Reader discretion is advised.

08 February, 2025

AT as Right - Report UNHCHR

 


Rights of persons with disabilities and digital technologies and devices, including assistive technologies—Report of the Office of the UNHCHR

The Convention on the Rights of Persons with Disabilities includes references to information and communications technologies, new technologies, and the Internet. The present report, submitted pursuant to Human Rights Council resolution 55/8, contains an examination of the rights of persons with disabilities and digital technologies and devices, including assistive technologies. Download full report in PDF Click Here on UN Website.


**Content Warning: This post contains discussions of disability rights and assitive technologies. Reader discretion is advised.**