26 January, 2025

پاکستانیوں میں خودپسندی کا مرض



 


پاکستانیوں میں خودپسندی کا مرض

آج کے دور میں ہمارے معاشرے میں ایک نئی قسم کی بیماری پھیل رہی ہے، جسے ہم "خودپسندی" کا مرض کہہ سکتے ہیں۔ یہ وہ کیفیت ہے جب انسان اپنی ذات، اپنی خوبیوں، اور اپنے کاموں کو حد سے زیادہ اہمیت دینے لگتا ہے۔ یہ مرض نہ صرف فرد کی شخصیت کو متاثر کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں بھی یہ مسئلہ تیزی سے پھیل رہا ہے، اور اس کے اثرات ہماری سماجی، معاشی، اور اخلاقی اقدار پر واضح نظر آتے ہیں۔

خودپسندی کیا ہے؟

خودپسندی دراصل ایک نفسیاتی مسئلہ ہے، جس میں انسان اپنی ذات کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگتا ہے۔ اس میں انسان دوسروں کی قدر و منزلت کو کم سمجھتا ہے اور صرف اپنی تعریف و توصیف پر توجہ دیتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف انسان کو معاشرے سے دور کر دیتا ہے بلکہ اس کی ترقی کے راستے بھی بند کر دیتا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں خودپسندی کی وجوہات

  1. سوشل میڈیا کا غلط استعمال:
    سوشل میڈیا نے لوگوں کو اپنی زندگی کو "دکھاوے" کے طور پر پیش کرنے کا موقع دیا ہے۔ لوگ اپنی تصاویر، کامیابیوں، اور مادی اشیاء کو دوسروں پر فخر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح ایک مقابلے کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے، جس میں ہر شخص دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔

  2. تعلیم کا فقدان:
    ہمارے معاشرے میں تعلیم کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا رہ گیا ہے، نہ کہ اخلاقی اور سماجی اقدار کو سیکھنا۔ اس وجہ سے لوگ اپنی ذات کو بڑا سمجھنے لگتے ہیں اور دوسروں کی قدر کرنا بھول جاتے ہیں۔

  3. مادہ پرستی:
    آج کل لوگ مادی اشیاء کو ہی کامیابی کی پہچان سمجھتے ہیں۔ گاڑی، بنگلہ، اور دیگر مادی اشیاء کو دکھا کر لوگ اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  4. خاندانی تربیت کا فقدان:
    خاندان میں اگر بچوں کو ابتدا ہی سے خودپسندی کی تربیت دی جائے تو وہ بڑے ہو کر خود کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگتے ہیں۔ والدین کا یہ رویہ بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

خودپسندی کے معاشرے پر اثرات

  1. تعلقات کی خرابی:
    خودپسندی کی وجہ سے انسان دوسروں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم نہیں کر پاتا۔ وہ ہر وقت اپنی تعریف چاہتا ہے اور دوسروں کی کامیابیوں کو تسلیم نہیں کرتا۔

  2. معاشرتی تقسیم:
    خودپسندی کی وجہ سے معاشرے میں طبقاتی تقسیم بڑھ جاتی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں، اور معاشرے میں عدم مساوات پیدا ہوتی ہے۔

  3. اخلاقی اقدار کا زوال:
    خودپسندی انسان کو خود غرض بنا دیتی ہے۔ وہ دوسروں کی مدد کرنے کے بجائے صرف اپنے مفادات کے بارے میں سوچتا ہے۔ اس طرح معاشرے سے ہمدردی اور ایثار جیسی اقدار ختم ہو جاتی ہیں۔

  4. ترقی کی راہ میں رکاوٹ:
    خودپسندی انسان کو سیکھنے اور بہتر بننے سے روکتی ہے۔ جو شخص خود کو کامل سمجھتا ہے، وہ کبھی اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی انہیں درست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

لسانی، گروہی، فرقہ وارانہ، اور مذہبی منافرت میں اضافہ

خودپسندی کا یہ مرض جہاں فرد کی شخصیت کو متاثر کرتا ہے، وہیں یہ پورے معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ خاص طور پر پاکستانی معاشرے میں خودپسندی کی وجہ سے لسانی، گروہی، فرقہ وارانہ، اور مذہبی منافرت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

  1. لسانی منافرت میں اضافہ:
    پاکستان ایک کثیر لسانی ملک ہے، جہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ خودپسندی کی وجہ سے ہر سانی گروہ اپنی زبان کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگا ہے۔ مثال کے طور پر:

    • اردو بولنے والے خود کو دوسری زبانوں سے بالاتر سمجھتے ہیں۔

    • پنجابی، سندھی، پشتو، اور بلوچی بولنے والے اپنی زبانوں کو اردو پر ترجیح دیتے ہیں۔

    • اس لسانی تفاخر کی وجہ سے لوگ دوسروں کی زبانوں کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں، جس سے معاشرے میں تقسیم پیدا ہوتی ہے۔

  2. گروہی منافرت میں اضافہ:
    خودپسندی کی وجہ سے ہر گروہ اپنے مفادات کو دوسروں پر ترجیح دینے لگا ہے۔ چاہے وہ طالب علم ہوں، کارکن ہوں، یا پیشہ ور افراد، ہر کوئی اپنے گروہ کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے۔

    • یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیمیں اپنے گروہی مفادات کے لیے دوسروں کے خلاف نفرت پھیلاتی ہیں۔

    • کاروباری گروہ اپنے مفادات کے لیے دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
      اس گروہی منافرت کی وجہ سے معاشرے میں اتحاد کی بجائے انتشار پیدا ہو رہا ہے۔

  3. فرقہ وارانہ منافرت میں اضافہ:
    پاکستان میں فرقہ وارانہ منافرت ایک پرانا مسئلہ ہے، لیکن خودپسندی کی وجہ سے یہ مسئلہ اور بھی گہرا ہو گیا ہے۔ ہر فرقہ اپنے عقائد اور روایات کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے اور دوسرے فرقوں کو کمتر جاننے لگا ہے۔

    • یہ رویہ نہ صرف مذہبی ہم آہنگی کو تباہ کر رہا ہے بلکہ معاشرے میں تشدد اور انتہا پسندی کو بھی ہوا دے رہا ہے۔

    • فرقہ وارانہ منافرت کی وجہ سے معاشرے میں اعتماد کا فقدان پیدا ہو گیا ہے، اور لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

  4. مذہبی منافرت میں اضافہ:
    خودپسندی کا یہ مرض مذہبی منافرت کو بھی ہوا دے رہا ہے۔ ہر مذہبی گروہ اپنے عقائد کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو کمتر جاننے لگا ہے۔

    • یہ رویہ نہ صرف مذہبی رواداری کو ختم کر رہا ہے بلکہ معاشرے میں نفرت اور تعصب کو بھی فروغ دے رہا ہے۔

    • مذہبی منافرت کی وجہ سے معاشرے میں امن اور سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے، اور لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو رہے ہیں۔

خودپسندی کے اثرات کا حل

  1. تعلیم اور آگاہی:
    معاشرے میں تعلیم اور آگاہی کے ذریعے خودپسندی کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ ہر زبان، گروہ، فرقہ، اور مذہب کی اپنی اہمیت ہے، اور کسی کو کمتر نہیں سمجھنا چاہیے۔

  2. مشترکہ مقاصد:
    لسانی، گروہی، فرقہ وارانہ، اور مذہبی اختلافات کو کم کرنے کے لیے مشترکہ مقاصد پر کام کیا جائے۔ مثال کے طور پر، تعلیم، صحت، اور معیشت جیسے شعبوں میں تمام گروہوں کو یکجا کر کے کام کیا جا سکتا ہے۔

  3. میڈیا کا مثبت کردار:
    میڈیا کو چاہیے کہ وہ خودپسندی کے بجائے اتحاد اور ہم آہنگی کے پیغامات کو فروغ دے۔ مختلف زبانوں، فرقوں، اور مذاہب کے درمیان مثبت کہانیاں پیش کی جائیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں محبت 

  4. اور احترام پیدا ہو۔
  5. قانون کا کردار:
    حکومت کو چاہیے کہ وہ لسانی، گروہی، فرقہ وارانہ، اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے والوں کے خلاف سخت قوانین بنائے اور ان پر عملدرآمد یقینی بنائے۔

خودپسندی کے مرض کا علاج

  1. خود احتسابی:
    ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے رویوں کا جائزہ لے۔ اگر وہ خودپسندی کا شکار ہے تو اسے فوری طور پر اس رویے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

  2. دوسروں کی قدر کرنا:
    ہمیں دوسروں کی کامیابیوں اور خوبیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ دوسروں کی تعریف کرنے سے نہ صرف ہمارے تعلقات بہتر ہوتے ہیں بلکہ ہماری شخصیت بھی نکھرتی ہے۔

  3. اخلاقی تربیت:
    والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ابتدا ہی سے اخلاقی اقدار کی تربیت دیں۔ انہیں بتائیں کہ کامیابی کا مطلب صرف مادی اشیاء نہیں، بلکہ دوسروں کی مدد کرنا اور معاشرے کے لیے مفید بننا ہے۔

  4. سوشل میڈیا کا صحیح استعمال:
    سوشل میڈیا کو اپنی ذات کی نمائش کے بجائے مثبت مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ دوسروں کی کامیابیوں کو سراہیں اور ان سے سیکھنے کی کوشش کریں۔

خودپسندی کا یہ مرض ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔ اگر ہم نے اس پر قابو نہ پایا تو یہ ہماری سماجی، مذہبی، اور قومی اقدار کو تباہ کر دے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رویوں کو بدلیں، دوسروں کی قدر کریں، اور معاشرے کے لیے مثبت کردار ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں خودپسندی کے مرض سے بچنے اور ایک بہتر معاشرہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔