30 May, 2025

کرپٹو کرنسی اور پاکستان


کرپٹو کرنسی  اور پاکستان  

پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے حوالے سے صورتحال ابھی تک غیر واضح ہے۔ حکومت نے کرپٹو کونسل قائم کی ہے، لیکن اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے مطابق، ملک میں کرپٹو کرنسی پر تاحال پابندی برقرار ہے۔

کرپٹو کرنسی ایک جدید ڈیجیٹل کرنسی ہے جو روایتی کاغذی نوٹوں اور سکوں کے برعکس، جسمانی طور پر موجود نہیں ہوتی۔ یہ مکمل طور پر انٹرنیٹ پر موجود ہوتی ہے اور اسے انکرپشن (encryption) کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے۔ کرپٹو کرنسی کو کوئی مرکزی بینک یا حکومت کنٹرول نہیں کرتی، بلکہ یہ ایک غیر مرکزی (decentralized) نظام پر چلتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ لین دین براہ راست صارفین کے درمیان ہوتا ہے اور اس کی نگرانی ایک بڑے نیٹ ورک کے ذریعے کی جاتی ہے۔ تمام لین دین کو ایک عوامی اور ناقابلِ تبدیلی ریکارڈ پر محفوظ کیا جاتا ہے جسے بلاک چین (Blockchain) کہتے ہیں۔ بٹ کوائن (Bitcoin) سب سے پہلی اور مشہور کرپٹو کرنسی ہے، جس کے بعد ایتھیریم (Ethereum) جیسی دیگر کرنسیاں بھی مقبول ہوئیں۔ کرپٹو کرنسی کی قیمت میں تیزی سے اتار چڑھاؤ آتا ہے، جو اس کی مانگ اور رسد (supply and demand) پر منحصر ہوتا ہے۔

عالمی سطح پر کرپٹو کرنسی کا استعمال اور امریکہ کا موقف

کرپٹو کرنسی نے عالمی سطح پر مالی لین دین اور سرمایہ کاری کے طریقے کو یکسر بدل دیا ہے۔ جہاں ایک طرف ہیکرز اور ڈارک ویب پر اس کا غلط استعمال دیکھنے میں آیا ہے، وہیں دوسری طرف ممالک اور بڑی کمپنیاں اسے نئے مالی مواقع کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ امریکی ایجنسیوں نے ہیکرز سے برآمد شدہ کرپٹو کرنسی کو اپنے سرکاری ذخائر کا حصہ بنایا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق، امریکہ کے پاس 25 ارب ڈالرز سے زائد کے صرف بٹ کوائن موجود ہیں، اس کے علاوہ ایتھیریم اور دیگر کرنسیاں بھی ہیں۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بٹ کوائن کو سرکاری طور پر "سٹریٹجک ریزرو" کا حصہ قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بٹ کوائن کو گولڈ اور ڈالرز کی طرح ایک قومی اثاثے کے طور پر محفوظ رکھا جائے گا اور اسے صرف ہنگامی حالات میں ہی بیچا جا سکے گا۔ اگرچہ اس فیصلے سے کرپٹو انڈسٹری کو امید تھی کہ امریکہ نئے بٹ کوائن خریدے گا، لیکن ٹرمپ کا یہ قدم کرپٹو کرنسی کو ایک جائز اور اہم مالی اثاثہ تسلیم کرنے کی جانب ایک بڑا قدم تھا۔ امریکہ جیسے امیر ترین ملک کا بٹ کوائن کو اپنے ذخائر میں شامل کرنا اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا ثبوت ہے۔

کرپٹو کرنسی کو سرکاری طور پر اپنانے والے ممالک کے تجربات

ایل سلواڈور (El Salvador) اور وسطی افریقی جمہوریہ (Central African Republic) دنیا کے وہ پہلے ممالک ہیں جنہوں نے بٹ کوائن کو قانونی ٹینڈر (Legal Tender) کے طور پر اپنایا۔ ان کے تجربات سے پاکستان جیسے دیگر ممالک کے لیے اہم سبق ملتے ہیں:

ایل سلواڈور کا تجربہ:

ایل سلواڈور نے ستمبر 2021 میں بٹ کوائن کو قانونی ٹینڈر بنایا، جس کا مقصد ترسیلات زر (remittances) کے اخراجات کو کم کرنا، مالی شمولیت کو فروغ دینا، اور ملک کو ڈیجیٹل فنانس کے عالمی مرکز کے طور پر قائم کرنا تھا۔

مثبت پہلو:

  • بین الاقوامی توجہ: بٹ کوائن کو اپنانے سے ایل سلواڈور کو عالمی سطح پر بھرپور توجہ ملی اور کرپٹو کمیونٹی میں اس کی پہچان بنی۔
  • ترسیلات زر میں ممکنہ کمی: حکومت کا دعویٰ تھا کہ بٹ کوائن کے ذریعے ترسیلات زر بھیجنے کی لاگت میں کمی آئی ہے۔
  • سیاحت میں اضافہ: کرپٹو کے شوقین افراد کی آمد سے سیاحت کے شعبے کو فائدہ ہوا۔

چیلنجز اور منفی اثرات:

  • محدود عوامی قبولیت: سرکاری "چی وو والٹ" کے باوجود، زیادہ تر عوام نے بٹ کوائن کو روزمرہ کے لین دین کے لیے قبول نہیں کیا۔ کاروبار بھی قیمت میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے اسے قبول کرنے میں ہچکچاتے رہے۔
  • تکنیکی مسائل: چی وو والٹ میں تکنیکی خرابیوں اور سیکورٹی کے مسائل نے صارفین کا اعتماد متزلزل کیا۔
  • مالیاتی استحکام کا خطرہ: بٹ کوائن کی قیمت میں شدید اتار چڑھاؤ نے ملک کے مالیاتی استحکام کو خطرے میں ڈالا اور حکومت کو لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔
  • بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا دباؤ: عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) نے بٹ کوائن کو قانونی ٹینڈر بنانے پر ایل سلواڈور پر شدید دباؤ ڈالا اور اس کے خطرات سے خبردار کیا۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، ایل سلواڈور نے اب نجی شعبے کے لیے بٹ کوائن قبول کرنے کی لازمی شرط ختم کر دی ہے اور IMF کے ساتھ معاہدے کے تحت اس کے استعمال کو محدود کیا ہے۔

وسطی افریقی جمہوریہ (CAR) کا تجربہ:

وسطی افریقی جمہوریہ نے 2022 میں بٹ کوائن کو قانونی ٹینڈر کے طور پر اپنایا، جس کا مقصد اپنی معیشت کو تقویت دینا اور مالیاتی آزادی حاصل کرنا تھا۔

چیلنجز اور منفی اثرات:

  • بنیادی ڈھانچے کی کمی: CAR میں انٹرنیٹ اور بجلی کی محدود رسائی نے بٹ کوائن کو عام کرنے میں بڑی رکاوٹ ڈالی۔ ملک کی 85% سے زیادہ آبادی کے پاس بجلی نہیں ہے۔
  • آئی ایم ایف اور علاقائی بینکوں کی مخالفت: اس اقدام کو آئی ایم ایف اور علاقائی مرکزی بینکوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جس سے ملک کے بین الاقوامی تعلقات متاثر ہوئے۔
  • مالیاتی جرائم کا خطرہ: شفافیت اور ریگولیشن کی کمی نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنڈنگ کے خدشات کو بڑھا دیا۔
  • تجربے کا الٹ جانا: ان چیلنجز کی وجہ سے ایک سال کے اندر ہی CAR کو بٹ کوائن کو قانونی ٹینڈر کے طور پر اپنانے کے فیصلے کو واپس لینا پڑا۔

پاکستان کے لیے کرپٹو کرنسی کے ممکنات اور اس کے سرکاری استعمال کے اثرات

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے کرپٹو کرنسی کے شعبے میں کئی مثبت امکانات موجود ہیں، اگرچہ اسے اپنانے میں احتیاط اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اگرچہ کرپٹو کرنسی کی قیمت میں اتار چڑھاؤ ایک حقیقت ہے، لیکن درست حکمت عملی اور پائیدار انفراسٹرکچر کے ساتھ پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

پاکستان، ایلسلواڈور اور وسطی افریقی جمہوریہ کی مماثلتیں:

پاکستان ایلسلواڈور اور وسطی افریقی جمہوریہ کے درمیان کرپٹو کرنسی کو سرکاری طور پر اپنانے کے حوالے سے کچھ اہم مماثلتیں پائی جاتی ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے:

  • بنیادی ڈھانچے کے چیلنجز:ایلسلواڈور اور CAR کی طرح پاکستان کو بھی بجلی کی فراہمی میں طویل لوڈ شیڈنگ اور انٹرنیٹ کی رسائی کے محدود ہونے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ کرپٹو کرنسی کا کامیاب استعمال، خاص طور پر مائننگ کے لیے، مستحکم اور سستی بجلی اور وسیع انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی چایئے ۔ اگر یہ بنیادی مسائل حل نہ کیے جائیں تو کرپٹو اپنانے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہو سکتی ہیں۔
  • بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا دباؤ: تینوں ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں (جیسے IMF) سے مالی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔  ایلسلواڈور اور CAR کے بٹ کوائن کو قانونی ٹینڈر بنانے کے فیصلے پر IMF کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں اسے یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ پاکستان کو بھی ایسے کسی بھی قدم سے پہلے IMF اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ممکنہ ردعمل کو مدنظر رکھنا ہو گا۔
  • معاشی عدم استحکام اور بدعنوانی: تینوں ممالک میں معاشی عدم استحکام اور بدعنوانی ایک بڑا چیلنج ہے۔ کرپٹو کرنسی کے ریگولیٹڈ نہ ہونے کی صورت میں یہ منی لانڈرنگ اور غیر قانونی سرگرمیوں کو فروغ دے سکتی ہے، جس سے پہلے سے کمزور معیشت پر مزید دباؤ پڑے گا۔
  • عوامی آگاہی کی کمی: دونوں ممالک کی بڑی آبادی کرپٹو کرنسی اور اس کی ٹیکنالوجی سے واقف نہیں ہے۔ ایسے ماحول میں اسے سرکاری طور پر اپنانا عوام کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے اور بڑے پیمانے پر اس کی قبولیت مشکل ہو گی۔

ممکنات:

  1. سرمایہ کاری اور معاشی استحکام: پاکستان اگر ایک شفاف اور ریگولیٹڈ فریم ورک کے تحت کرپٹو کرنسی کو فروغ دیتا ہے، تو یہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کر سکتا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے کرپٹو کے ذریعے ترسیلات زر (remittances) بھیجنا آسان اور کم خرچ ہو سکتا ہے، جس سے ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا۔

  2. ٹیکنالوجی اور جدت کا فروغ: بلاک چین ٹیکنالوجی، جو کرپٹو کرنسی کی بنیاد ہے، صرف کرپٹو تک محدود نہیں۔ یہ مختلف شعبوں جیسے سپلائی چین، ووٹنگ سسٹمز، اور ریکارڈ مینجمنٹ میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہے۔ پاکستان اس ٹیکنالوجی کو اپنا کر جدت اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کر سکتا ہے۔

  3. مائننگ انڈسٹری میں سرمایہ کاری: اگرچہ پاکستان میں بجلی اور انفراسٹرکچر کے چیلنجز موجود ہیں، لیکن اگر حکومت قابل تجدید توانائی (renewable energy) کے ذرائع جیسے شمسی اور پن بجلی کو فروغ دے کر کم لاگت پر بجلی فراہم کرے تو کرپٹو مائننگ سینٹرز کے لیے ایک پرکشش مقام بن سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اس کے لیے ایک مضبوط قانونی ڈھانچہ اور محفوظ ماحول فراہم کرنا ضروری ہے۔

  4. مالی شمولیت: پاکستان میں بہت بڑی آبادی ایسی ہے جو بینکنگ نظام سے منسلک نہیں ہے۔ کرپٹو کرنسی انہیں مالیاتی خدمات تک رسائی فراہم کر سکتی ہے، جس سے مالی شمولیت (financial inclusion) میں اضافہ ہو گا۔ موبائل والٹس اور ڈیجیٹل ادائیگیوں کے ذریعے لوگ آسانی سے لین دین کر سکیں گے۔

  5. عالمی تجارت میں سہولت: کرپٹو کرنسی بین الاقوامی تجارت کو آسان اور تیز بنا سکتی ہے، خاص طور پر ان ممالک کے ساتھ جہاں روایتی بینکنگ نظام پیچیدہ ہے۔ اس سے تجارتی لین دین کی لاگت کم ہو سکتی ہے اور کاروباری عمل میں تیزی آ سکتی ہے۔

کرپٹو کرنسی کو سرکاری طور پر اپنانے کے ممکنہ اثرات:

اگر پاکستان، پچھلے ممالک کے تجربات سے سیکھتے ہوئے، کرپٹو کرنسی کو احتیاط اور تدبر کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں سرکاری طور پر اپنانے یا اسے سٹریٹجک ریزرو کا حصہ بنانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات ہو سکتے ہیں:

مثبت اثرات:

  • بین الاقوامی شناخت اور سرمایہ کاری: اگر پاکستان ایک واضح اور محفوظ ریگولیٹری فریم ورک کے ساتھ کرپٹو کو سرکاری طور پر تسلیم کرتا ہے، تو یہ عالمی سطح پر ٹیکنالوجی اور مالیاتی جدت کی جانب ایک مثبت اشارہ ہو گا۔ اس سے کرپٹو کی عالمی مارکیٹ سے سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی مالیاتی ساکھ بہتر ہو سکتی ہے۔
  • جدید مالیاتی نظام کی تشکیل: کرپٹو کو سرکاری سطح پر اپنانا ملک کو ایک جدید ڈیجیٹل مالیاتی نظام کی طرف لے جا سکتا ہے، جس سے لین دین میں شفافیت اور کارکردگی بڑھ سکتی ہے۔
  • سود سے پاک مالیاتی حل: اسلامی مالیاتی نظام میں سود سے پاک لین دین کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، کرپٹو کرنسی کے بلاک چین نظام کو ایسے حل فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جو شریعہ کے اصولوں کے مطابق ہوں۔
  • مہنگائی پر کنٹرول (ممکنہ طور پر): بعض کرپٹو کرنسیز کی محدود سپلائی کی وجہ سے، اگر حکومت انہیں احتیاط سے استعمال کرے تو یہ طویل مدت میں روایتی کرنسیوں کے مقابلے میں افراط زر (مہنگائی) پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

منفی اثرات اور چیلنجز:

  • قیمت میں شدید اتار چڑھاؤ کا خطرہ: کرپٹو کرنسیز کی قدر بہت تیزی سے اوپر نیچے ہوتی ہے۔ اگر اسے سرکاری لین دین یا ذخائر میں شامل کیا جائے تو یہ ملک کی معیشت کے لیے شدید غیر یقینی صورتحال پیدا کر سکتا ہے اور مالی استحکام کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
  • قانون سازی اور ریگولیشن کا فقدان: پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے لیے ابھی تک کوئی جامع اور مضبوط قانونی فریم ورک موجود نہیں ہے۔ اسے سرکاری طور پر اپنانے سے پہلے منی لانڈرنگ، دہشت گردی کی فنڈنگ، اور سائبر کرائمز سے بچنے کے لیے سخت قوانین اور نگرانی کا نظام وضع کرنا ضروری ہے۔
  • ٹیکنالوجیکل چیلنجز اور سیکورٹی: کرپٹو کرنسی کے نظام کو چلانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی، بجلی کا مستقل بہاؤ، اور سائبر سیکیورٹی کے سخت اقدامات درکار ہیں۔ پاکستان میں ان شعبوں میں کافی چیلنجز موجود ہیں جن سے نمٹنا ہو گا۔
  • بین الاقوامی اداروں کا ردعمل: عالمی مالیاتی ادارے جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ابھی تک کرپٹو کرنسی کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے اس کے سرکاری استعمال پر انہیں تحفظات ہو سکتے ہیں، جو بیرونی امداد اور تعلقات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
  • عوامی آگاہی اور تعلیم: پاکستان کی ایک بڑی آبادی کرپٹو کرنسی اور بلاک چین ٹیکنالوجی سے ناواقف ہے۔ اسے سرکاری طور پر اپنانے سے قبل عوام میں آگاہی اور تعلیم فراہم کرنا ضروری ہو گا تاکہ وہ اس کے استعمال اور خطرات کو سمجھ سکیں۔

پاکستان کو کرپٹو کرنسی کے ممکنہ فوائد حاصل کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جو بہترین عالمی طریقوں کے مطابق ہو۔ اس میں سیکیورٹی، ریگولیشن، اور انفراسٹرکچر پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ اگر پاکستان ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتا ہے تو یہ ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے بہت احتیاط، حکمت عملی اور شفافیت کی ضرورت ہو گی تاکہ پچھلے ممالک کے تجربات سے سیکھتے ہوئے ممکنہ نقصانات سے بچا جا سکے۔


 

17 May, 2025

جدید جنگ کی تباہ کاریاں

 

جدید جنگ کی تباہ کاریاں

جنوبی ایشیا ایک دہائی سے زائد عرصے سے کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان اور بھارت، دو جوہری طاقتیں، ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رکھتے ہیں جس میں سیاسی اور فوجی تناؤ معمول کا حصہ رہا ہے۔ لیکن اب یہ مقابلہ صرف فوجیوں کی تعداد یا روایتی ہتھیاروں تک محدود نہیں رہا۔ ٹیکنالوجی کی برتری اسٹریٹجک توازن کا ایک اہم عنصر بن چکی ہے اور حالیہ واقعات نے اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے۔

فروری 2025 میں، مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ ایک سلیکٹ  ٹو کل واردات میں نہتے ہندو مردوں کو نشانہ بنایا گیا جیسا کہ جعفر آباد ایکسپریس کے واقعے میں ہوا تھا۔ اس المناک واقعے نے دونوں ممالک کے پہلے سے کشیدہ تعلقات کو مزید سنگین کر دیا کیونکہ بھارت کافی  عرصہ سے پاکستان میں مداخلت کا سوچ رہا تھا۔ اس کے پیچھے کچھ عوامل تھے جن میں پاکستان کے سیاسی اور معاشی خراب حالات، مودی کی فاشسٹ سیاست، پاکستان میں فوج کی گرتی ہوئی مقبولیت  اور بھارت کا جدید اسلحہ خریدنے کا جنون جسے کسی پر آزمانہ ضروری تھا۔  ان وجوہات کی بنا پر سرحدوں پر فوجی نقل و حرکت میں تیزی آئی اور خطے پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔ اس نازک صورتحال میں، دونوں ممالک کی دفاعی صلاحیتوں اور ان میں موجود جدید ٹیکنالوجی کا موازنہ کرنا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا۔

پلوامہ واقعہ کس نے کروایا دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام دھرتے ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ بلوچستان جعفر ایکسپریس کا بدلہ ہے جب کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ مودی کو الیکشن جیتنے کیلئے پاکستان اور مسلم مخالف جذبات کو بھڑکانہ ہے۔ اگر غیر جانبدار ہو کے سوچا جائے تو اس کا فائدہ مودی اور شہباز رجیمس کو ہوئے۔ نقصان دونوں طرف سے عوام کا ہوا۔ کیونکہ جنگیں ہمیشہ تباہی لاتی ہیں۔

حالیہ پاک بھارت جنگ نے ایک اہم حقیقت کو آشکار کیا ہے، حربی ٹیکنالوجی میں چین کی مہارت اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی۔ اگرچہ ماضی میں دیگر شعبوں میں چینی ٹیکنالوجی کی برتری کے آثار دکھائی دیتے تھے، لیکن یہ تاثر عام تھا کہ عسکری ٹیکنالوجی کے میدان میں چین ابھی بھی امریکہ اور یورپ سے پیچھے ہے۔ اس برتری کا حقیقی امتحان کسی میدانِ جنگ میں ہی ممکن تھا، اور پاک بھارت جنگ نے یہ موقع فراہم کر دیا۔ اس جنگ کے ابتدائی نتائج نے مغرب کے لیے تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، کیونکہ چینی ساختہ ہتھیاروں نے بظاہر یورپی ٹیکنالوجی کو شکست دی ہے۔ مغربی میڈیا میں اس شکست پر ماتم کیا جا رہا ہے اور اس تشویش کا ایک بڑا پہلو یہ ہے کہ اس جنگ میں چین مبینہ طور پر پاکستان کی براہِ راست مدد کر رہا ہے۔ تاہم، اس واویلے میں اسرائیل کا ذکر کہیں نہیں ہے، جو کھلے عام بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور جس کے میزائل اس جنگ میں استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ دوغلا معیار مغربی اخلاقیات پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اسکے علاوہ یورپ کی دفاعی مصنوعات کے شیئرز چائنہ کے مقابلے مین گرتے جارہے ہیں۔ انڈیا اس کو پروپیگنڈہ قرار دیتا ہے لیکن عالمی مارکیٹ الگ کہانی سنا رہی رہے۔

بھارت نے گزشتہ برسوں میں اپنی دفاعی قوت کو جدید بنانے کے لیے مغربی ممالک سے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ فرانسیسی رافیل طیارے اور روسی ایس-400 میزائل جیسے جدید ترین ہتھیار اس کی فضائی اور دفاعی قوت کا اہم حصہ ہیں۔ اسکے علاوہ اسرائیلی جدید ترین ڈرونز الگ ہیں۔ دوسری جانب، پاکستان نے اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چین کے ساتھ مضبوط شراکت داری قائم کی ہے۔ پاک-چین مشترکہ منصوبے  جے ایف تھنڈر طیارے جدید ترین چینی میزائلوں سے لیس ہیں اور مبینہ طور پر انہوں نے حالیہ جنگ میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ حربی ٹیکنالوجی اور سائبر وار کے میدان میں بھی چین نے اپنی برتری ثابت کر دی ہے۔ یہ پیشرفت یقیناً مغرب کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، جس نے طویل عرصے تک اس میدان میں اپنی اجارہ داری قائم رکھی تھی۔

اس صورتحال کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ میدانِ جنگ ہمیشہ غریب اور پسماندہ قومیں ہی بنتی ہیں۔ بڑی طاقتیں اگر اپنی حربی قوت کو آزمانا چاہتی ہیں تو اس کے لیے پاکستان اور بھارت جیسے ممالک ہی منتخب کیے جاتے ہیں۔ یہ قوتیں ان ممالک کو اسلحہ فروخت کرتی ہیں اور ان کے عوام پر اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرتی ہیں۔ عراق اور ایران کی جنگ کے دوران بھی یہی کچھ ہوا، جب مغربی ممالک دونوں طرف اسلحہ بیچ رہے تھے۔ بدقسمتی سے، پاکستان اور بھارت دونوں ہی غربت اور معاشی مسائل کا شکار ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ بڑی طاقتوں سے اربوں روپے کا اسلحہ خرید رہے ہیں۔ بھارت کے پاس فرانسیسی ٹیکنالوجی ہے تو پاکستان کے پاس چینی۔ اس صورتحال میں، دونوں ممالک کی دولت ترقی یافتہ ممالک کے خزانوں میں جا رہی ہے اور یہاں کے عوام بھوک سے نڈھال ہیں۔

 تقسیم کے بعد بھارت کا کردار انتہائی اہم تھا۔ پاکستان کبھی بھی جارحانہ عزائم کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ ہماری تمام تر کوششیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے پر مرکوز تھیں۔ قائداعظم محمد علی جناح بھی چاہتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکہ اور کینیڈا جیسے دوستانہ تعلقات قائم ہوں۔ لیکن افسوس کہ بھارت نے اپنے احساس محرومی کے تاریخی تناظر میں وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا  چاہیے تھا۔ بلکہ اس نے پاکستان کو بھارت کی تقسیم قرار دیا اور مسلمانوں سے تاریخی غلامی کا بدلہ لینے کا سوچنے لگے جو آج بھی جاری ہے۔ اسی وجہ سے فاشٹوں کو بھارت میں پنپنے کا موقعہ ملا۔ بھارتی قیادت کی تاریخی بے بصیرتی نے برصغیر کو ایک نہ ختم ہونے والے فساد کے حوالے کر دیا۔ نواز شریف نے ایک بار کوشش کی کہ تاریخ کے اس عمل کو درست سمت میں آگے بڑھایا جائے، لیکن ان کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ واجپائی نے بھی مثبت سوچ کا مظاہرہ کیا، لیکن مجموعی طور پر بھارتی قیادت سطحی ثابت ہوئی۔ موجودہ بھارتی قیادت نے تو حالات کو مزید خراب کر دیا ہے، جس سے امن اور بقائے باہمی کی بات کرنا مشکل تر ہو گیا ہے۔

تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بھارت کی موجودہ جارحیت نے پاکستان کو بھی مجبوراً اپنا دفاعی بجٹ بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ دونوں ممالک اپنی محدود وسائل کا بڑا حصہ اسلحہ خریدنے پر خرچ کر رہے ہیں، جس کا براہِ راست نقصان ان کے عوام کو ہو رہا ہے۔ بھارت نے مسلسل پاکستانی شہروں کو نشانہ بنایا ہے، جس کے جواب میں پاکستان نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا، لیکن بھارت نے اس صورتحال کو ایک مکمل جنگ میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ تین دن سے جاری اس جنگ میں، عالمی طاقتوں کا کردار بھی مایوس کن رہا ہے۔ بظاہر ایران کے سوا کسی نے بھی اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں اس جنگ سے اپنے اسلحے کی فروخت میں اضافے کا انتظار کر رہی ہیں۔

اگر بھارت میں انتہا پسند قیادت کا راج برقرار رہتا ہے، تو کیا پاکستان کی حکمتِ عملی اس کی یرغمال بنی رہے گی؟ یہ ہمارے لیے ایک اہم سوال ہے۔ ہمیں ردِ عمل کی نفسیات سے نکل کر اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔ ہمیں بھارت کے ساتھ ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو مشکل سوالات کے جواب دے سکے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو بھارت کے عوام بھی اسے مسیحا سمجھیں گے اور شاید بھارت کو بھی کوئی اچھی قیادت میسر آ جائے۔ موجودہ صورتحال میں، پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس کا سامنا صرف دانشمندانہ قیادت اور قومی یکجہتی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ غزوہ احد کی طرح جشن مانانے سے دشمن خاموش نہیں بیٹھے گا۔ پاکستان کو اس  مختصر جنگ سے سیکھنا چاہیئے جشن منانے کیلئے ایک عمر پڑی ہے۔ پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مزید مضبوظ ہونا پڑے گا، سیاسی اور معاشی استحکام لانا پڑے گا، بھارتی پروپیگنڈہ اور ڈپلومیسی کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ نہیں تو انیس سو پینسٹھ کا جشن اور انیس سو ایکہتر کی سبکی کو نہیں بھولنا چاہیئے۔

13 May, 2025

منٹو کا "یزید"



"منٹو کا "یزید                                               

سجاد حیدر بریلوی المعروف منٹو اُردو کے ان عظیم ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے نہ صرف انسانی نفسیات بلکہ سماجی اور تاریخی حقائق کو بھی بڑی دلنشین اور فنی انداز میں بیان کیا۔ ان کی کہانی "یزید" بھی اسی روایت کی ایک کڑی ہے، جو تاریخ، فکشن اور اخلاقیات کو سموئے ہوئے ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار "یزید بن معاویہ" ہے، جو بنی امیہ خلفاء میں سے ایک تھا۔ تاریخ میں یزید کا نام عموماً منفی تناظر میں آتا ہے، خصوصاً اس لیے کہ اس کے دور میں کربلا کا المیہ رونما ہوا، جہاں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے شہادت کا راز فروغ دیا۔ اس واقعہ کے بعد یزید کا نام محض ایک ظالم اور بے دین حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا رہا ہے۔

 منٹو کی نظر میں یزید

لیکن منٹو نے اس کہانی میں ایک مختلف پہلو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے "یزید" کو صرف ایک ظالم حکمران کے بجائے ایک انسانی شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے۔ کہانی میں یزید کو ایک ایسے شخص کے طور پر دکھایا گیا ہے جو اقتدار، عیش و عشرت اور ذاتی خواہشات کے باوجود اپنے وجود کے کمزور پہلوؤں سے دوچار ہے۔ وہ ایک ایسا انسان ہے جو قدرتی طور پر غلطی کر سکتا ہے، جسے شکستیں ملتی ہیں اور جو اپنے اعمال کے نتائج سے دوچار ہوتا ہے. منٹو کی کہانی میں یزید کے اندر ایک ایسا احساس موجود ہے کہ وہ اپنے فعل سے آگاہ ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ان سے نہیں بچ پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی کے اختتام پر یزید اپنی زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے کہتا ہے:  

 “اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں ایک گدھا بننا پسند کروں یا کتوں کا بچہ، لیکن انسان نہیں بننا چاہوں گا۔”

یہ جملہ منٹو کے فن کا عکاس ہے، جو انسانی نفسیات اور سماجی دباؤ کو بڑی گہرائی سے پیش کرتا ہے۔

یزید کی کہانی منٹو کے اس موقف کی عکاسی کرتی ہے کہ تاریخ میں شخصیات کو سیاہ و سفید نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہر شخص کے پیچھے ایک سماجی، ثقافتی اور سیاسی پس منظر ہوتا ہے، جو اس کے افعال کو شکل دیتا ہے۔ منٹو نے اس کہانی میں تاریخی شخصیت کو فکشن کے ذریعے زندہ کیا ہے اور اس کے ذہنی اور جذباتی دنیا کو پیش کیا ہے۔ کہانی میں خواتین کا کردار بھی قابلِ غور ہے۔ یزید کی بیوی ہندہ ایک مضبوط شخصیت کے طور پر سامنے آتی ہے، جو یزید کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ ایک ایسی عورت ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور جذباتی سطح پر بھی جڑی ہوئی ہے۔

 منٹو کا یزید اور نریندر مودی

منٹو کی کہانی "یزید" میں جو تاریخی ظلم اور اقتدار کے نشہ میں کھوئی ہوئی شخصیت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے، اس کی موجودہ دنیا میں بھی واضح عکاسی دیکھی جا سکتی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کی کوششیں، اسی ظلم اور سیاسی مصلحت کی عکاسی کرتی ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کو پانی استعمال کرنے کے حقوق دیے گئے تھے۔ لیکن موجودہ بھارتی حکومت نے حالیہ برسوں میں اس معاہدے کو چیلنج کیا ہے، اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے منصوبوں پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہی ظلم ہے جو منٹو کی کہانی میں یزید کے کردار میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں اقتدار کے نشہ میں مست حکمران، انصاف، اخلاق اور انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر اپنی مرضی کو ترجیح دیتے ہیں۔

منٹو کی کہانی "یزید" نہ صرف ایک تاریخی داستان ہے، بلکہ ایک ایسی کہانی ہے جو انسانیت کے ضمیر، اقتدار کے اثرات اور اخلاقی جنگ کو بڑی موثر انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ تاریخ میں کسی بھی شخصیت کو سمجھنے کے لیے صرف ایک جانب دیکھنا کافی نہیں، بلکہ ہمیں تمام پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے۔ نریندر مودی کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کی کوششیں، تاریخی ظلم کی موجودہ دنیا میں عکاسی کرتی ہیں۔ اس لیے منٹو کی کہانی "یزید" آج بھی زندہ ہے، کیونکہ اس کا پیغام وقتاً فوقتاً دہرایا جاتا رہے گا۔

 بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تو وہ شخصیت ہیں جو سندھ طاس معاہدے پر زیادہ بات کرتے رہے ہیں اور "پانی روکنے" کے حوالے سے ان کے متعدد بیانات آئے ہیں اور یزید بھی پانی روکنے کے حوالے سے مشہور ہے، لیکن درحقیقت، نریندر مودی کے علاوہ بھی کچھ دیگر بھارتی حکمرانوں اور سیاستدانوں نے بھی پاکستان کو پانی فراہمی بند کرنے یا معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ پانی روکنے کی سوچ بھارت میں اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ جب سے آر ایس ایس کی طفیلی پارٹی بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اس طرح کی سوچ کو تقویت مل رہی ہے۔ 

ذیل میں ان کے نام اور ان کے بیانات درج ہیں

راج ناتھ سنگھ (وزیر داخلہ، سابق وزیر دفاع)

وقت: 2016ء

واقعہ: سرجیکل اسٹرائیک کے بعد، بھارت نے پاکستان کے خلاف سخت مؤقف اپنایا۔

بیان: تب کے دفاعی وزیر راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا:

“ہم سندھ طاس معاہدے پر دوبارہ غور کر رہے ہیں۔ ہم پاکستان کو پانی نہیں دے سکتے اگر وہ دہشت گردی کو فروغ دیتا رہے گا۔” 

 ارون جیٹلی (سابق وزیر خزانہ، دفاع اور قانون)

وقت: 2016ء

بیان: انہوں نے بھی سندھ طاس معاہدے کو "ایک جانبہ" قرار دیتے ہوئے کہا تھا

“بھارت کو اس معاہدے کے تحت اپنا حق استعمال کرنا چاہیے اور اگر ضرورت ہو تو اسے منسوخ کرنا چاہیے۔” 

یوگی ادتیاناتھ (وزیر اعلیٰ اتر پردیش)

وقت: 2019ء

بیان: انہوں نے ایک تقریب میں کہا تھا

“ہمیں پاکستان کو پانی دینے کے بجائے اسے سبق سکھانا چاہیے۔ ہم اسے پانی نہیں دیں گے، بلکہ گولیاں دیں گے۔” 

 منٹو نے کہانی "یزید" اسوقت لکھی، جب بھارت نے نوزائدہ ریاست پاکستان کو پانی روکنے کی دھمکی دی ہوئی تھی۔ اس لیے یہ کہانی نہ صرف تاریخی ہے، بلکہ اپنے وقت کی سیاست اور سماجی حقائق کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ کیونکہ ظلم، اقتدار اور انسانی ضمیر کا موضوع ہمیشہ سے ہے  آج بھی موجود ہے اور رہے گا۔