جدید جنگ کی تباہ کاریاں
جنوبی ایشیا ایک دہائی سے زائد عرصے سے کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان اور بھارت، دو جوہری طاقتیں، ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رکھتے ہیں جس میں سیاسی اور فوجی تناؤ معمول کا حصہ رہا ہے۔ لیکن اب یہ مقابلہ صرف فوجیوں کی تعداد یا روایتی ہتھیاروں تک محدود نہیں رہا۔ ٹیکنالوجی کی برتری اسٹریٹجک توازن کا ایک اہم عنصر بن چکی ہے اور حالیہ واقعات نے اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے۔
فروری 2025 میں، مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ ایک سلیکٹ ٹو کل واردات میں نہتے ہندو مردوں کو نشانہ بنایا گیا جیسا کہ جعفر آباد ایکسپریس کے واقعے میں ہوا تھا۔ اس المناک واقعے نے دونوں ممالک کے پہلے سے کشیدہ تعلقات کو مزید سنگین کر دیا کیونکہ بھارت کافی عرصہ سے پاکستان میں مداخلت کا سوچ رہا تھا۔ اس کے پیچھے کچھ عوامل تھے جن میں پاکستان کے سیاسی اور معاشی خراب حالات، مودی کی فاشسٹ سیاست، پاکستان میں فوج کی گرتی ہوئی مقبولیت اور بھارت کا جدید اسلحہ خریدنے کا جنون جسے کسی پر آزمانہ ضروری تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر سرحدوں پر فوجی نقل و حرکت میں تیزی آئی اور خطے پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔ اس نازک صورتحال میں، دونوں ممالک کی دفاعی صلاحیتوں اور ان میں موجود جدید ٹیکنالوجی کا موازنہ کرنا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا۔
پلوامہ واقعہ کس نے کروایا دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام دھرتے ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ بلوچستان جعفر ایکسپریس کا بدلہ ہے جب کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ مودی کو الیکشن جیتنے کیلئے پاکستان اور مسلم مخالف جذبات کو بھڑکانہ ہے۔ اگر غیر جانبدار ہو کے سوچا جائے تو اس کا فائدہ مودی اور شہباز رجیمس کو ہوئے۔ نقصان دونوں طرف سے عوام کا ہوا۔ کیونکہ جنگیں ہمیشہ تباہی لاتی ہیں۔
حالیہ پاک بھارت جنگ نے ایک اہم حقیقت کو آشکار کیا ہے، حربی ٹیکنالوجی میں چین کی مہارت اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی۔ اگرچہ ماضی میں دیگر شعبوں میں چینی ٹیکنالوجی کی برتری کے آثار دکھائی دیتے تھے، لیکن یہ تاثر عام تھا کہ عسکری ٹیکنالوجی کے میدان میں چین ابھی بھی امریکہ اور یورپ سے پیچھے ہے۔ اس برتری کا حقیقی امتحان کسی میدانِ جنگ میں ہی ممکن تھا، اور پاک بھارت جنگ نے یہ موقع فراہم کر دیا۔ اس جنگ کے ابتدائی نتائج نے مغرب کے لیے تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، کیونکہ چینی ساختہ ہتھیاروں نے بظاہر یورپی ٹیکنالوجی کو شکست دی ہے۔ مغربی میڈیا میں اس شکست پر ماتم کیا جا رہا ہے اور اس تشویش کا ایک بڑا پہلو یہ ہے کہ اس جنگ میں چین مبینہ طور پر پاکستان کی براہِ راست مدد کر رہا ہے۔ تاہم، اس واویلے میں اسرائیل کا ذکر کہیں نہیں ہے، جو کھلے عام بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور جس کے میزائل اس جنگ میں استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ دوغلا معیار مغربی اخلاقیات پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اسکے علاوہ یورپ کی دفاعی مصنوعات کے شیئرز چائنہ کے مقابلے مین گرتے جارہے ہیں۔ انڈیا اس کو پروپیگنڈہ قرار دیتا ہے لیکن عالمی مارکیٹ الگ کہانی سنا رہی رہے۔
بھارت نے گزشتہ برسوں میں اپنی دفاعی قوت کو جدید بنانے کے لیے مغربی ممالک سے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ فرانسیسی رافیل طیارے اور روسی ایس-400 میزائل جیسے جدید ترین ہتھیار اس کی فضائی اور دفاعی قوت کا اہم حصہ ہیں۔ اسکے علاوہ اسرائیلی جدید ترین ڈرونز الگ ہیں۔ دوسری جانب، پاکستان نے اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چین کے ساتھ مضبوط شراکت داری قائم کی ہے۔ پاک-چین مشترکہ منصوبے جے ایف تھنڈر طیارے جدید ترین چینی میزائلوں سے لیس ہیں اور مبینہ طور پر انہوں نے حالیہ جنگ میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ حربی ٹیکنالوجی اور سائبر وار کے میدان میں بھی چین نے اپنی برتری ثابت کر دی ہے۔ یہ پیشرفت یقیناً مغرب کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، جس نے طویل عرصے تک اس میدان میں اپنی اجارہ داری قائم رکھی تھی۔
اس صورتحال کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ میدانِ جنگ ہمیشہ غریب اور پسماندہ قومیں ہی بنتی ہیں۔ بڑی طاقتیں اگر اپنی حربی قوت کو آزمانا چاہتی ہیں تو اس کے لیے پاکستان اور بھارت جیسے ممالک ہی منتخب کیے جاتے ہیں۔ یہ قوتیں ان ممالک کو اسلحہ فروخت کرتی ہیں اور ان کے عوام پر اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرتی ہیں۔ عراق اور ایران کی جنگ کے دوران بھی یہی کچھ ہوا، جب مغربی ممالک دونوں طرف اسلحہ بیچ رہے تھے۔ بدقسمتی سے، پاکستان اور بھارت دونوں ہی غربت اور معاشی مسائل کا شکار ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ بڑی طاقتوں سے اربوں روپے کا اسلحہ خرید رہے ہیں۔ بھارت کے پاس فرانسیسی ٹیکنالوجی ہے تو پاکستان کے پاس چینی۔ اس صورتحال میں، دونوں ممالک کی دولت ترقی یافتہ ممالک کے خزانوں میں جا رہی ہے اور یہاں کے عوام بھوک سے نڈھال ہیں۔
تقسیم کے بعد بھارت کا کردار انتہائی اہم تھا۔ پاکستان کبھی بھی جارحانہ عزائم کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ ہماری تمام تر کوششیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے پر مرکوز تھیں۔ قائداعظم محمد علی جناح بھی چاہتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکہ اور کینیڈا جیسے دوستانہ تعلقات قائم ہوں۔ لیکن افسوس کہ بھارت نے اپنے احساس محرومی کے تاریخی تناظر میں وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ بلکہ اس نے پاکستان کو بھارت کی تقسیم قرار دیا اور مسلمانوں سے تاریخی غلامی کا بدلہ لینے کا سوچنے لگے جو آج بھی جاری ہے۔ اسی وجہ سے فاشٹوں کو بھارت میں پنپنے کا موقعہ ملا۔ بھارتی قیادت کی تاریخی بے بصیرتی نے برصغیر کو ایک نہ ختم ہونے والے فساد کے حوالے کر دیا۔ نواز شریف نے ایک بار کوشش کی کہ تاریخ کے اس عمل کو درست سمت میں آگے بڑھایا جائے، لیکن ان کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ واجپائی نے بھی مثبت سوچ کا مظاہرہ کیا، لیکن مجموعی طور پر بھارتی قیادت سطحی ثابت ہوئی۔ موجودہ بھارتی قیادت نے تو حالات کو مزید خراب کر دیا ہے، جس سے امن اور بقائے باہمی کی بات کرنا مشکل تر ہو گیا ہے۔
تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بھارت کی موجودہ جارحیت نے پاکستان کو بھی مجبوراً اپنا دفاعی بجٹ بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ دونوں ممالک اپنی محدود وسائل کا بڑا حصہ اسلحہ خریدنے پر خرچ کر رہے ہیں، جس کا براہِ راست نقصان ان کے عوام کو ہو رہا ہے۔ بھارت نے مسلسل پاکستانی شہروں کو نشانہ بنایا ہے، جس کے جواب میں پاکستان نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا، لیکن بھارت نے اس صورتحال کو ایک مکمل جنگ میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ تین دن سے جاری اس جنگ میں، عالمی طاقتوں کا کردار بھی مایوس کن رہا ہے۔ بظاہر ایران کے سوا کسی نے بھی اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں اس جنگ سے اپنے اسلحے کی فروخت میں اضافے کا انتظار کر رہی ہیں۔
اگر بھارت میں انتہا پسند قیادت کا راج برقرار رہتا ہے، تو کیا پاکستان کی حکمتِ عملی اس کی یرغمال بنی رہے گی؟ یہ ہمارے لیے ایک اہم سوال ہے۔ ہمیں ردِ عمل کی نفسیات سے نکل کر اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔ ہمیں بھارت کے ساتھ ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو مشکل سوالات کے جواب دے سکے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو بھارت کے عوام بھی اسے مسیحا سمجھیں گے اور شاید بھارت کو بھی کوئی اچھی قیادت میسر آ جائے۔ موجودہ صورتحال میں، پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس کا سامنا صرف دانشمندانہ قیادت اور قومی یکجہتی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ غزوہ احد کی طرح جشن مانانے سے دشمن خاموش نہیں بیٹھے گا۔ پاکستان کو اس مختصر جنگ سے سیکھنا چاہیئے جشن منانے کیلئے ایک عمر پڑی ہے۔ پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مزید مضبوظ ہونا پڑے گا، سیاسی اور معاشی استحکام لانا پڑے گا، بھارتی پروپیگنڈہ اور ڈپلومیسی کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ نہیں تو انیس سو پینسٹھ کا جشن اور انیس سو ایکہتر کی سبکی کو نہیں بھولنا چاہیئے۔
No comments:
Post a Comment