Showing posts with label war. Show all posts
Showing posts with label war. Show all posts

17 May, 2025

جدید جنگ کی تباہ کاریاں

 

جدید جنگ کی تباہ کاریاں

جنوبی ایشیا ایک دہائی سے زائد عرصے سے کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ پاکستان اور بھارت، دو جوہری طاقتیں، ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رکھتے ہیں جس میں سیاسی اور فوجی تناؤ معمول کا حصہ رہا ہے۔ لیکن اب یہ مقابلہ صرف فوجیوں کی تعداد یا روایتی ہتھیاروں تک محدود نہیں رہا۔ ٹیکنالوجی کی برتری اسٹریٹجک توازن کا ایک اہم عنصر بن چکی ہے اور حالیہ واقعات نے اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے۔

فروری 2025 میں، مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ ایک سلیکٹ  ٹو کل واردات میں نہتے ہندو مردوں کو نشانہ بنایا گیا جیسا کہ جعفر آباد ایکسپریس کے واقعے میں ہوا تھا۔ اس المناک واقعے نے دونوں ممالک کے پہلے سے کشیدہ تعلقات کو مزید سنگین کر دیا کیونکہ بھارت کافی  عرصہ سے پاکستان میں مداخلت کا سوچ رہا تھا۔ اس کے پیچھے کچھ عوامل تھے جن میں پاکستان کے سیاسی اور معاشی خراب حالات، مودی کی فاشسٹ سیاست، پاکستان میں فوج کی گرتی ہوئی مقبولیت  اور بھارت کا جدید اسلحہ خریدنے کا جنون جسے کسی پر آزمانہ ضروری تھا۔  ان وجوہات کی بنا پر سرحدوں پر فوجی نقل و حرکت میں تیزی آئی اور خطے پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے۔ اس نازک صورتحال میں، دونوں ممالک کی دفاعی صلاحیتوں اور ان میں موجود جدید ٹیکنالوجی کا موازنہ کرنا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا۔

پلوامہ واقعہ کس نے کروایا دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام دھرتے ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ بلوچستان جعفر ایکسپریس کا بدلہ ہے جب کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ مودی کو الیکشن جیتنے کیلئے پاکستان اور مسلم مخالف جذبات کو بھڑکانہ ہے۔ اگر غیر جانبدار ہو کے سوچا جائے تو اس کا فائدہ مودی اور شہباز رجیمس کو ہوئے۔ نقصان دونوں طرف سے عوام کا ہوا۔ کیونکہ جنگیں ہمیشہ تباہی لاتی ہیں۔

حالیہ پاک بھارت جنگ نے ایک اہم حقیقت کو آشکار کیا ہے، حربی ٹیکنالوجی میں چین کی مہارت اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی۔ اگرچہ ماضی میں دیگر شعبوں میں چینی ٹیکنالوجی کی برتری کے آثار دکھائی دیتے تھے، لیکن یہ تاثر عام تھا کہ عسکری ٹیکنالوجی کے میدان میں چین ابھی بھی امریکہ اور یورپ سے پیچھے ہے۔ اس برتری کا حقیقی امتحان کسی میدانِ جنگ میں ہی ممکن تھا، اور پاک بھارت جنگ نے یہ موقع فراہم کر دیا۔ اس جنگ کے ابتدائی نتائج نے مغرب کے لیے تشویش کی لہر دوڑا دی ہے، کیونکہ چینی ساختہ ہتھیاروں نے بظاہر یورپی ٹیکنالوجی کو شکست دی ہے۔ مغربی میڈیا میں اس شکست پر ماتم کیا جا رہا ہے اور اس تشویش کا ایک بڑا پہلو یہ ہے کہ اس جنگ میں چین مبینہ طور پر پاکستان کی براہِ راست مدد کر رہا ہے۔ تاہم، اس واویلے میں اسرائیل کا ذکر کہیں نہیں ہے، جو کھلے عام بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اور جس کے میزائل اس جنگ میں استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ دوغلا معیار مغربی اخلاقیات پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اسکے علاوہ یورپ کی دفاعی مصنوعات کے شیئرز چائنہ کے مقابلے مین گرتے جارہے ہیں۔ انڈیا اس کو پروپیگنڈہ قرار دیتا ہے لیکن عالمی مارکیٹ الگ کہانی سنا رہی رہے۔

بھارت نے گزشتہ برسوں میں اپنی دفاعی قوت کو جدید بنانے کے لیے مغربی ممالک سے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ فرانسیسی رافیل طیارے اور روسی ایس-400 میزائل جیسے جدید ترین ہتھیار اس کی فضائی اور دفاعی قوت کا اہم حصہ ہیں۔ اسکے علاوہ اسرائیلی جدید ترین ڈرونز الگ ہیں۔ دوسری جانب، پاکستان نے اپنی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے چین کے ساتھ مضبوط شراکت داری قائم کی ہے۔ پاک-چین مشترکہ منصوبے  جے ایف تھنڈر طیارے جدید ترین چینی میزائلوں سے لیس ہیں اور مبینہ طور پر انہوں نے حالیہ جنگ میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا ہے۔ یہ حقیقت اب کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ حربی ٹیکنالوجی اور سائبر وار کے میدان میں بھی چین نے اپنی برتری ثابت کر دی ہے۔ یہ پیشرفت یقیناً مغرب کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، جس نے طویل عرصے تک اس میدان میں اپنی اجارہ داری قائم رکھی تھی۔

اس صورتحال کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ میدانِ جنگ ہمیشہ غریب اور پسماندہ قومیں ہی بنتی ہیں۔ بڑی طاقتیں اگر اپنی حربی قوت کو آزمانا چاہتی ہیں تو اس کے لیے پاکستان اور بھارت جیسے ممالک ہی منتخب کیے جاتے ہیں۔ یہ قوتیں ان ممالک کو اسلحہ فروخت کرتی ہیں اور ان کے عوام پر اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرتی ہیں۔ عراق اور ایران کی جنگ کے دوران بھی یہی کچھ ہوا، جب مغربی ممالک دونوں طرف اسلحہ بیچ رہے تھے۔ بدقسمتی سے، پاکستان اور بھارت دونوں ہی غربت اور معاشی مسائل کا شکار ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ بڑی طاقتوں سے اربوں روپے کا اسلحہ خرید رہے ہیں۔ بھارت کے پاس فرانسیسی ٹیکنالوجی ہے تو پاکستان کے پاس چینی۔ اس صورتحال میں، دونوں ممالک کی دولت ترقی یافتہ ممالک کے خزانوں میں جا رہی ہے اور یہاں کے عوام بھوک سے نڈھال ہیں۔

 تقسیم کے بعد بھارت کا کردار انتہائی اہم تھا۔ پاکستان کبھی بھی جارحانہ عزائم کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ ہماری تمام تر کوششیں اپنے وجود کو برقرار رکھنے پر مرکوز تھیں۔ قائداعظم محمد علی جناح بھی چاہتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امریکہ اور کینیڈا جیسے دوستانہ تعلقات قائم ہوں۔ لیکن افسوس کہ بھارت نے اپنے احساس محرومی کے تاریخی تناظر میں وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا  چاہیے تھا۔ بلکہ اس نے پاکستان کو بھارت کی تقسیم قرار دیا اور مسلمانوں سے تاریخی غلامی کا بدلہ لینے کا سوچنے لگے جو آج بھی جاری ہے۔ اسی وجہ سے فاشٹوں کو بھارت میں پنپنے کا موقعہ ملا۔ بھارتی قیادت کی تاریخی بے بصیرتی نے برصغیر کو ایک نہ ختم ہونے والے فساد کے حوالے کر دیا۔ نواز شریف نے ایک بار کوشش کی کہ تاریخ کے اس عمل کو درست سمت میں آگے بڑھایا جائے، لیکن ان کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ واجپائی نے بھی مثبت سوچ کا مظاہرہ کیا، لیکن مجموعی طور پر بھارتی قیادت سطحی ثابت ہوئی۔ موجودہ بھارتی قیادت نے تو حالات کو مزید خراب کر دیا ہے، جس سے امن اور بقائے باہمی کی بات کرنا مشکل تر ہو گیا ہے۔

تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق بھارت کی موجودہ جارحیت نے پاکستان کو بھی مجبوراً اپنا دفاعی بجٹ بڑھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ دونوں ممالک اپنی محدود وسائل کا بڑا حصہ اسلحہ خریدنے پر خرچ کر رہے ہیں، جس کا براہِ راست نقصان ان کے عوام کو ہو رہا ہے۔ بھارت نے مسلسل پاکستانی شہروں کو نشانہ بنایا ہے، جس کے جواب میں پاکستان نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا، لیکن بھارت نے اس صورتحال کو ایک مکمل جنگ میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ تین دن سے جاری اس جنگ میں، عالمی طاقتوں کا کردار بھی مایوس کن رہا ہے۔ بظاہر ایران کے سوا کسی نے بھی اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں اس جنگ سے اپنے اسلحے کی فروخت میں اضافے کا انتظار کر رہی ہیں۔

اگر بھارت میں انتہا پسند قیادت کا راج برقرار رہتا ہے، تو کیا پاکستان کی حکمتِ عملی اس کی یرغمال بنی رہے گی؟ یہ ہمارے لیے ایک اہم سوال ہے۔ ہمیں ردِ عمل کی نفسیات سے نکل کر اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہو گا۔ ہمیں بھارت کے ساتھ ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو مشکل سوالات کے جواب دے سکے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو بھارت کے عوام بھی اسے مسیحا سمجھیں گے اور شاید بھارت کو بھی کوئی اچھی قیادت میسر آ جائے۔ موجودہ صورتحال میں، پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ خطے میں امن و استحکام کے لیے بھی ہر ممکن کوشش کرنی ہو گی۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس کا سامنا صرف دانشمندانہ قیادت اور قومی یکجہتی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ غزوہ احد کی طرح جشن مانانے سے دشمن خاموش نہیں بیٹھے گا۔ پاکستان کو اس  مختصر جنگ سے سیکھنا چاہیئے جشن منانے کیلئے ایک عمر پڑی ہے۔ پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مزید مضبوظ ہونا پڑے گا، سیاسی اور معاشی استحکام لانا پڑے گا، بھارتی پروپیگنڈہ اور ڈپلومیسی کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ نہیں تو انیس سو پینسٹھ کا جشن اور انیس سو ایکہتر کی سبکی کو نہیں بھولنا چاہیئے۔

13 May, 2025

منٹو کا "یزید"



"منٹو کا "یزید                                               

سجاد حیدر بریلوی المعروف منٹو اُردو کے ان عظیم ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے نہ صرف انسانی نفسیات بلکہ سماجی اور تاریخی حقائق کو بھی بڑی دلنشین اور فنی انداز میں بیان کیا۔ ان کی کہانی "یزید" بھی اسی روایت کی ایک کڑی ہے، جو تاریخ، فکشن اور اخلاقیات کو سموئے ہوئے ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار "یزید بن معاویہ" ہے، جو بنی امیہ خلفاء میں سے ایک تھا۔ تاریخ میں یزید کا نام عموماً منفی تناظر میں آتا ہے، خصوصاً اس لیے کہ اس کے دور میں کربلا کا المیہ رونما ہوا، جہاں حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) نے شہادت کا راز فروغ دیا۔ اس واقعہ کے بعد یزید کا نام محض ایک ظالم اور بے دین حکمران کے طور پر یاد کیا جاتا رہا ہے۔

 منٹو کی نظر میں یزید

لیکن منٹو نے اس کہانی میں ایک مختلف پہلو اجاگر کیا ہے۔ انہوں نے "یزید" کو صرف ایک ظالم حکمران کے بجائے ایک انسانی شخصیت کے طور پر پیش کیا ہے۔ کہانی میں یزید کو ایک ایسے شخص کے طور پر دکھایا گیا ہے جو اقتدار، عیش و عشرت اور ذاتی خواہشات کے باوجود اپنے وجود کے کمزور پہلوؤں سے دوچار ہے۔ وہ ایک ایسا انسان ہے جو قدرتی طور پر غلطی کر سکتا ہے، جسے شکستیں ملتی ہیں اور جو اپنے اعمال کے نتائج سے دوچار ہوتا ہے. منٹو کی کہانی میں یزید کے اندر ایک ایسا احساس موجود ہے کہ وہ اپنے فعل سے آگاہ ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ان سے نہیں بچ پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ کہانی کے اختتام پر یزید اپنی زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے کہتا ہے:  

 “اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں ایک گدھا بننا پسند کروں یا کتوں کا بچہ، لیکن انسان نہیں بننا چاہوں گا۔”

یہ جملہ منٹو کے فن کا عکاس ہے، جو انسانی نفسیات اور سماجی دباؤ کو بڑی گہرائی سے پیش کرتا ہے۔

یزید کی کہانی منٹو کے اس موقف کی عکاسی کرتی ہے کہ تاریخ میں شخصیات کو سیاہ و سفید نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہر شخص کے پیچھے ایک سماجی، ثقافتی اور سیاسی پس منظر ہوتا ہے، جو اس کے افعال کو شکل دیتا ہے۔ منٹو نے اس کہانی میں تاریخی شخصیت کو فکشن کے ذریعے زندہ کیا ہے اور اس کے ذہنی اور جذباتی دنیا کو پیش کیا ہے۔ کہانی میں خواتین کا کردار بھی قابلِ غور ہے۔ یزید کی بیوی ہندہ ایک مضبوط شخصیت کے طور پر سامنے آتی ہے، جو یزید کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ ایک ایسی عورت ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور جذباتی سطح پر بھی جڑی ہوئی ہے۔

 منٹو کا یزید اور نریندر مودی

منٹو کی کہانی "یزید" میں جو تاریخی ظلم اور اقتدار کے نشہ میں کھوئی ہوئی شخصیت کا نقشہ پیش کیا گیا ہے، اس کی موجودہ دنیا میں بھی واضح عکاسی دیکھی جا سکتی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کی کوششیں، اسی ظلم اور سیاسی مصلحت کی عکاسی کرتی ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی تقسیم کے حوالے سے اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کو پانی استعمال کرنے کے حقوق دیے گئے تھے۔ لیکن موجودہ بھارتی حکومت نے حالیہ برسوں میں اس معاہدے کو چیلنج کیا ہے، اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے منصوبوں پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے۔ یہ وہی ظلم ہے جو منٹو کی کہانی میں یزید کے کردار میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں اقتدار کے نشہ میں مست حکمران، انصاف، اخلاق اور انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر اپنی مرضی کو ترجیح دیتے ہیں۔

منٹو کی کہانی "یزید" نہ صرف ایک تاریخی داستان ہے، بلکہ ایک ایسی کہانی ہے جو انسانیت کے ضمیر، اقتدار کے اثرات اور اخلاقی جنگ کو بڑی موثر انداز میں پیش کرتی ہے۔ یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ تاریخ میں کسی بھی شخصیت کو سمجھنے کے لیے صرف ایک جانب دیکھنا کافی نہیں، بلکہ ہمیں تمام پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے۔ نریندر مودی کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کی کوششیں، تاریخی ظلم کی موجودہ دنیا میں عکاسی کرتی ہیں۔ اس لیے منٹو کی کہانی "یزید" آج بھی زندہ ہے، کیونکہ اس کا پیغام وقتاً فوقتاً دہرایا جاتا رہے گا۔

 بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تو وہ شخصیت ہیں جو سندھ طاس معاہدے پر زیادہ بات کرتے رہے ہیں اور "پانی روکنے" کے حوالے سے ان کے متعدد بیانات آئے ہیں اور یزید بھی پانی روکنے کے حوالے سے مشہور ہے، لیکن درحقیقت، نریندر مودی کے علاوہ بھی کچھ دیگر بھارتی حکمرانوں اور سیاستدانوں نے بھی پاکستان کو پانی فراہمی بند کرنے یا معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکیاں دی ہیں۔ پانی روکنے کی سوچ بھارت میں اچانک پیدا نہیں ہوئی۔ جب سے آر ایس ایس کی طفیلی پارٹی بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اس طرح کی سوچ کو تقویت مل رہی ہے۔ 

ذیل میں ان کے نام اور ان کے بیانات درج ہیں

راج ناتھ سنگھ (وزیر داخلہ، سابق وزیر دفاع)

وقت: 2016ء

واقعہ: سرجیکل اسٹرائیک کے بعد، بھارت نے پاکستان کے خلاف سخت مؤقف اپنایا۔

بیان: تب کے دفاعی وزیر راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا:

“ہم سندھ طاس معاہدے پر دوبارہ غور کر رہے ہیں۔ ہم پاکستان کو پانی نہیں دے سکتے اگر وہ دہشت گردی کو فروغ دیتا رہے گا۔” 

 ارون جیٹلی (سابق وزیر خزانہ، دفاع اور قانون)

وقت: 2016ء

بیان: انہوں نے بھی سندھ طاس معاہدے کو "ایک جانبہ" قرار دیتے ہوئے کہا تھا

“بھارت کو اس معاہدے کے تحت اپنا حق استعمال کرنا چاہیے اور اگر ضرورت ہو تو اسے منسوخ کرنا چاہیے۔” 

یوگی ادتیاناتھ (وزیر اعلیٰ اتر پردیش)

وقت: 2019ء

بیان: انہوں نے ایک تقریب میں کہا تھا

“ہمیں پاکستان کو پانی دینے کے بجائے اسے سبق سکھانا چاہیے۔ ہم اسے پانی نہیں دیں گے، بلکہ گولیاں دیں گے۔” 

 منٹو نے کہانی "یزید" اسوقت لکھی، جب بھارت نے نوزائدہ ریاست پاکستان کو پانی روکنے کی دھمکی دی ہوئی تھی۔ اس لیے یہ کہانی نہ صرف تاریخی ہے، بلکہ اپنے وقت کی سیاست اور سماجی حقائق کی عکاسی بھی کرتی ہے۔ کیونکہ ظلم، اقتدار اور انسانی ضمیر کا موضوع ہمیشہ سے ہے  آج بھی موجود ہے اور رہے گا۔