09 April, 2025

پاکستان میں معلومات تک رسائی کا حق

 



پاکستان میں معلومات تک رسائی کا حق

پاکستان میں ایک فرد معلومات کا حق ۲۰۱۷ کے قانون کے مطابق کسی ادارے کو درخواست لکھ سکتا ہے اور ازالہ نہ ہونے کی صورت میں مزید اقدامات اٹھا سکتا ہے۔ ذیل میں اس کا تفصیلی طریقہ کار اور مزید قانونی راستے درج ہیں:

درخواست لکھنے کا طریقہ کار:

معلومات کا حق ۲۰۱۷ کے قانون کے تحت کسی بھی وفاقی سرکاری ادارے سے معلومات حاصل کرنے کے لیے ایک باضابطہ درخواست جمع کروانا ضروری ہے۔ درخواست لکھنے کے لیے آپ مندرجہ ذیل اقدامات پر عمل کر سکتے ہیں:

  1. درخواست کی تیاری:

    • درخواست سادہ کاغذ پر لکھی جا سکتی ہے یا ادارے کی طرف سے فراہم کردہ مخصوص فارم استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کچھ وفاقی اداروں نے اپنی ویب سائٹس پر درخواست کے فارم مہیا کیے ہیں۔
    • درخواست میں واضح طور پر مطلوبہ معلومات کی نشاندہی کریں تاکہ ادارے کو اسے تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ مبہم یا غیر واضح درخواستوں پر کارروائی میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
    • درخواست گزار اپنا مکمل نام، پتہ، شناختی کارڈ نمبر اور رابطہ کی تفصیلات (فون نمبر، ای میل) درج کرے۔
    • درخواست میں اس بات کا واضح ذکر کریں کہ یہ درخواست "معلومات کا حق ایکٹ ۲۰۱۷" کے تحت جمع کروائی جا رہی ہے۔
    • اگر معلومات کسی خاص شکل میں درکار ہوں (مثلاً فوٹو کاپی، سی ڈی، ای میل)، تو اس کا بھی ذکر کریں۔
    • درخواست پر دستخط کرنا نہ بھولیں۔
  2. ادارے کا تعین:

    • یہ یقینی بنائیں کہ آپ اپنی درخواست متعلقہ وفاقی سرکاری ادارے کو بھیج رہے ہیں جس کے پاس مطلوبہ معلومات موجود ہیں۔
  3. درخواست جمع کروانے کا طریقہ:

    • درخواست بذات خود جا کر جمع کروائی جا سکتی ہے۔
    • ڈاک کے ذریعے بھیجی جا سکتی ہے۔
    • فیکس یا ای میل کے ذریعے بھیجی جا سکتی ہے (اگر ادارہ یہ سہولت فراہم کرتا ہو)۔
    • کچھ ادارے آن لائن درخواست جمع کروانے کی سہولت بھی دیتے ہیں۔
  4. رسید حاصل کرنا:

    • درخواست جمع کرواتے وقت ادارے سے رسید ضرور حاصل کریں جس میں درخواست کی تاریخ اور وصولی کی تصدیق درج ہو۔ اگر ڈاک کے ذریعے بھیج رہے ہیں تو رجسٹرڈ پوسٹ کا استعمال کریں اور رسید محفوظ رکھیں۔
  5. فیس کی ادائیگی (اگر لاگو ہو):

    • قانون کے تحت کچھ معلومات کی فراہمی پر معمولی فیس لاگو ہو سکتی ہے۔ اگر ادارہ فیس کا مطالبہ کرے تو اسے مقررہ طریقے سے ادا کریں۔ زندگی یا آزادی سے متعلق معلومات کی فراہمی پر کوئی فیس نہیں لی جاتی۔

ازالہ نہ ہونے کی صورت میں مزید اقدامات:

اگر آپ کی درخواست پر مقررہ وقت میں کوئی جواب نہ ملے، یا آپ کو نامکمل، غلط یا گمراہ کن معلومات فراہم کی جائیں، یا آپ کی درخواست کو مسترد کر دیا جائے، تو آپ مندرجہ ذیل مزید اقدامات اٹھا سکتے ہیں:

  1. شکایت درج کروانا:

    • معلومات کا حق ایکٹ ۲۰۱۷ کے تحت ایک آزاد اپیلٹ فورم، پاکستان انفارمیشن کمیشن (Pakistan Information Commission) قائم کیا گیا ہے۔ اگر آپ کو کسی سرکاری ادارے سے معلومات حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہو تو آپ کمیشن میں شکایت درج کروا سکتے ہیں۔
    • شکایت سادہ کاغذ پر یا کمیشن کی طرف سے فراہم کردہ مخصوص فارم پر درج کروائی جا سکتی ہے۔
    • شکایت میں درخواست کی تفصیلات، ادارے کا نام، وہ وجوہات جن کی بنا پر آپ مطمئن نہیں ہیں (مثلاً جواب نہ ملنا، غلط معلومات، درخواست کی مستردگی) اور اپنی رابطہ کی تفصیلات واضح طور پر درج کریں۔
    • درخواست کی رسید اور ادارے کے جواب (اگر موصول ہوا ہو) کی کاپی بھی شکایت کے ساتھ منسلک کریں۔
  2. کمیشن سے رابطہ کرنے کا طریقہ:

    • پاکستان انفارمیشن کمیشن کے دفتر میں بذات خود جا کر شکایت درج کروائی جا سکتی ہے۔
    • ڈاک کے ذریعے شکایت بھیجی جا سکتی ہے۔
    • کمیشن کی ویب سائٹ پر آن لائن شکایت درج کروانے کی سہولت بھی موجود ہو سکتی ہے۔
  3. کمیشن کی کارروائی:

    • کمیشن موصول ہونے والی شکایت کا جائزہ لے گا اور متعلقہ ادارے کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر سکتا ہے۔
    • کمیشن فریقین کو سماعت کے لیے بلا سکتا ہے اور ریکارڈ طلب کر سکتا ہے۔
    • اگر کمیشن کو یہ یقین ہو جائے کہ ادارے نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو وہ مناسب احکامات جاری کر سکتا ہے، جس میں معلومات کی فراہمی کا حکم بھی شامل ہے۔
    • کمیشن کسی افسر کو قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب پائے تو اس پر جرمانہ بھی عائد کر سکتا ہے۔
  4. عدالت سے رجوع (آخری چارہ):

    • اگر آپ پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلے سے بھی مطمئن نہیں ہیں، تو آپ آئین کے تحت عدالت عالیہ (High Court) سے رجوع کر سکتے ہیں۔ یہ ایک آخری قانونی چارہ ہو گا۔

اہم نکات:

  • معلومات کا حق ایکٹ ۲۰۱۷ صرف وفاقی سرکاری اداروں پر لاگو ہوتا ہے۔ صوبائی سطح پر معلومات کے حق کے قوانین مختلف ہو سکتے ہیں۔
  • کچھ مخصوص معلومات قانون کے تحت مستثنیٰ قرار دی گئی ہیں جنہیں فراہم کرنے سے ادارہ انکار کر سکتا ہے۔ ان مستثنیات کا ذکر قانون میں موجود ہے۔
  • درخواست اور شکایت درج کرواتے وقت تمام ضروری دستاویزات اور معلومات فراہم کرنا یقینی بنائیں تاکہ کارروائی میں تاخیر نہ ہو۔
  • ہر مرحلے پر اپنی درخواست اور شکایات کی رسیدات اور دیگر متعلقہ دستاویزات کو محفوظ رکھیں۔

یہ طریقہ کار آپ کو پاکستان میں معلومات کا حق ۲۰۱۷ کے قانون کے مطابق کسی ادارے کو درخواست لکھنے اور ازالہ نہ ہونے کی صورت میں مزید قانونی راستے اختیار کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔

05 April, 2025

Super Urgent - Pre-Registration for Civil Society Forum in Sevilla, Spain

 



Pre-Registration for Civil Society Forum in Sevilla, Spain

The Financing for Development (FfD) Conferences are a series of major global meetings that focus on addressing the financial structural challenges required to achieve sustainable development. These conferences bring together governments, multilateral organizations, civil society, and the private sector to discuss and coordinate efforts on financial and related systemic issues in global economic governance. 
The first of these conferences, the International Conference on Financing for Development, was held in Monterrey, Mexico, in 2002, where the Monterrey Consensus was adopted. This landmark document outlined six areas of financing for development, including domestic financial resources, foreign direct investment and other private flows, international trade, international financial cooperation, debt, and systemic issues such as global economic governance.
Subsequent conferences, such as those held in Doha (2008) and Addis Ababa (2015), have built upon the Monterrey Consensus, addressing emerging challenges and reinforcing the global commitment to finance development effectively and equitably. These conferences are crucial for setting international agendas and fostering cooperation to achieve the United Nations Sustainable Development Goals (SDGs).
This two-day forum will bring together activists, civil society organizations, networks, federations, and social movements that are engaged in the Financing for Development (FfD) Process and its interrelated domains. Expect insightful panels, strong analysis, in-depth discussions, and strategic planning in preparation for the FfD4 Conference.
The Civil Society FfD Mechanism, in close coordination with the Spanish CSO Coordination Group, is trying its best to secure the logistical premises for the Civil Society Forum, which will precede (on June 28-29) the Fourth Financing for Development Conference. We are aware the interest in attending the forum is extremely high, including by all those organizations that do not have formal accreditation to the main conference. It is difficult, however, to plan the logistics of the forum without knowing the expected scale of participation. We would appreciate it if each organization intending to participate could fill out this form urgently, possibly by no later than April 8th COB, as this will allow proper contracting of the Forum space. Please fill out only one form per organization, as the form requests the indication of the expected size of the delegation. Please note that the formal registration process (which will be for individual rather than organizational registration) will open soon. This form generates no obligations and no limitations of participation. This pre-registration is exclusively intended to get the pulse of the expected attendance.




04 April, 2025

پاکستان میں بجلی کی قیمت میں کمی, وجہ، حقیقت اور امکانات


پاکستان میں بجلی کی قیمت میں کمی, وجہ، حقیقت اور امکانات

پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں کمی کا حالیہ اعلان ملک کے توانائی سیکٹر میں ایک اہم پیش رفت تصور کی جا رہی ہے ہے۔ وفاقی حکومت کے بقول گھریلو اور صنعتی صارفین دونوں کے لیے فی یونٹ قیمت میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔ تاہم، یہ کمی کیسے ممکن ہوئی اور کیا یہ ریلیف طویل عرصے تک برقرار رہ پائے گا، یہ وہ سوالات ہیں جن پر گہری نظر ڈالنا ضروری ہے۔
حکومت کے مطابق، جون 2024 میں گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی قیمت 48.70 روپے فی یونٹ تھی، جو اب 34.37 روپے فی یونٹ ہو گئی ہے۔ اسی طرح، صنعتی صارفین کے لیے فی یونٹ قیمت 58.50 روپے سے کم ہو کر 48.19 روپے ہو گئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس کمی کا اعلان کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو اس پر راضی کرنا ایک مشکل کام تھا۔
اصل مسئلے کی جڑ پی پی پی اور نواز لیگ ہیں جنہوں نے آئی پی پیز سے معاہدے کیئے۔ جب سیاستدانوں نے دیکھا کہ اس میں فائدہ ہی فائدہ ہے تو انہوں نے اپنی کمپنیز بنا کر ان سے معاہدے کر لئے۔ پاکستان میں آئی پی پیز کا آغاز 1990 کی دہائی میں ہوا، جب حکومت نے نجی شعبے کو بجلی کی پیداوار میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت، ملک کو بجلی کی شدید قلت کا ہوگا ، اور حکومت کے پاس اتنی مالی گنجائش نہیں تھی کہ وہ نئے پاور پلانٹس لگا سکے۔ متبادل ذرائع دیکھنے کی بجائے، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں، حکومت نے ان کمپنیوں کو کیپسٹی پیمنٹ کی ضمانت دی، جس کا مطلب ہے کہ حکومت بجلی خریدے یا نہ خریدے، اسے ان کمپنیوں کو ایک مقررہ رقم ادا کرنی ہوگی۔ یہ معاہدے اس وقت کے معاشی حالات کے مطابق کیے گئے تھے یا پھر سیاسی شہرت حاصل کرنے کیلئے، جب پاکستان کو فوری طور پر بجلی کی پیداوار بڑھانے کی ضرورت تھی۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ، ان معاہدوں کے منفی اثرات سامنے آنے لگے۔ واپڈا میں رشوت عروج پر تھی اور اسے سفید ہاتھی کا خطاب مل چکا ہے اوپر سے کیپسٹی پیمنٹ کی وجہ سے، حکومت پر مالی بوجھ بڑھ گیا، اور  آ پی پیز کی وجہ سے بجلی کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ اس کے علاوہ، ان معاہدوں میں شفافیت کی کمی بھی ایک مسئلہ رہی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ حکومتیں جلدی میں تھیں۔ اوپر سے ڈالر اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا ایک اہم سبب رہا ہے۔ پاکستان ایک درآمدی ملک ہے، اور ڈالر کی قیمت میں اضافے سے درآمدی اشیاء کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے بجلی کی پیداوار کی لاگت بھی بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ کئی بجلی گھر تیل سے چلتے ہیں۔ یہ 
ایک ایسا شیطانی چکر ہے جس سے پاکستان کیلئے نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔
 



اگر آپ دیے گئے گرافس کا تجزیہ کریں گے تو آپ کو پتا چلے گا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کتنی کم ہوئیں اور پاکستان میں کتنی بڑھائی گئیں۔ جیسے جیسے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہوتی گئین ہیسے ہیسے پاکستان میں تیل کی قیمتیں بڑھتی رہیں۔ عمران خان کو اتارنے کے بعد پی ڈی ایم کی ایک سال کی حکومت میں مہنگائی دو سو گنا اضافہ کیا گیا اور اسی مہنگائی کو آج پی تی آئی کی حکومت پر تھوپا جا رہا ہے۔ یہ سارے کام عمران خان سے کروانے تھے جس کی ابتداٗ ہو چکی تھی  لیکن پی ڈی ایم کی جلد بازی نے عمران خان کا بھلا کردیا اب سارے کرتوت پی ڈی ایم کے کھاتہ میں اور تاریخ میں رقم ہو چکے ہیں۔ ایک طرف حکومت نے عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالہ تو دوسری طرف بجلی کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔  صنعتیں شفٹ ہو کر بنگلادیش پہنچ گئیں اور بنگلادیش کو گارمینٹس پہلے نمبر ہر لاکر کھڑا کیا۔ جب کہ وہاں کپاس بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ لوڈ شیڈنگ میں بہت اضافہ ہوا۔   
ماہرین توانائی کے مطابق، یہ کمی اچانک نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ ان میں آئی پی پیز (انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی، قرضوں کی ری شیڈولنگ، اور پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ شامل ہیں۔ حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی ہے، جس سے کیپسٹی پیمنٹ کی ادائیگی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ وہ ادائیگی ہے جو حکومت بجلی خریدے یا نہ خریدے، اسے ادا کرنی ہوتی ہے۔ نیوکلیئر اور سی پیک پلانٹس کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی گئی ہے، جس سے حکومت کو مالی گنجائش ملی ہے۔
 حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ کیا ہے، جس سے اضافی ریونیو حاصل ہوا ہے اور بجلی کی قیمت میں کمی کے لیے مالی سپیس ملی ہے۔ ماہرین کے مطابق، یہ کمی قلیل سے درمیانی مدت تک برقرار رہ سکتی ہے۔ تاہم، مستقبل میں بجلی کے ٹیرف میں تبدیلی سے اس کی پائیداری کا اندازہ ہو سکے گا۔ حکومت دوسرے آئی پی پیز کے ساتھ بھی معاہدوں پر نظرثانی کر سکتی ہے اور بجلی کی مارکیٹ کو مزید مسابقتی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
پاکستان میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر طویل عرصے سے تنقید کی جا رہی ہے۔ جب یہ تنقید حد سے بڑھ کر میڈیا کی زینت بنی تو حکومت پر بہت زیادہ پریشر بڑھ گیا۔ ان معاہدوں میں حکومت نے 'ٹیک آر پے' کی بنیاد پر ادائیگی کی ضمانت دی تھی، جس کا مطلب ہے کہ بجلی خریدے بغیر بھی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ یہ کیپسٹی پیمنٹ کہلاتی ہے، جو صارفین کے بجلی کے بلوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ جب پانی سر سے اونچا ہوا تو حکومت نے  ان معاہدوں پر نظرثانی شروع کردی، جس سے سالانہ اربوں روپے کی بچت متوقع ہے۔ تاہم، اس کا صارفین کے بلوں پر کتنا اثر پڑے گا، یہ دیکھنا باقی ہے۔ آئی پی پیز کی ملکیت کا معاملہ بھی زیر بحث ہے۔ کچھ آئی پی پیز کے مالکان میں سیاستدان اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ شفافیت کے حوالے سے، یہ ضروری ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کی تفصیلات عام کی جائیں تاکہ عوام کو معلوم ہو سکے کہ ان معاہدوں سے ملک کو کتنا فائدہ یا نقصان ہو رہا ہے اور کون کون سی شخصیات اور کمپنیوں نے کتنے اور کون سے فوائد حاصل کئے۔
 اس وقت فوری طور پر حکومت معاہدے ختم نہیں کر سکتی لیکن انھیں ریوائز کیا جا سکتا ہے۔ ان کیپسٹی چارجز میں 50 فیصد سے زیادہ شیئر گردشی قرضوں، ان پر سود، ایکویٹی پر رٹرن کی مد میں ہے اور تمام ہی پاکستان میں شرح سود، عالمی شرح سود، مہنگائی، اور ایکسچینج ریٹ سے جڑے ہیں۔ تو اگر یہ کم ہو جائیں اس صورت میں بھی کیپسٹی چارجز میں کمی آ سکتی ہے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ معاشی ماہر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آج کی بات کریں تو مسئلہ آئی پی پیز (انڈیپیندنٹ پاور پروڈیوسرز) کا نہیں بلکہ اُن گردشی قرضوں کا ہے جن کا سامنا ہماری معیشت کو ہے۔
پاکستان کے توانائی سیکٹر کو پائیدار بنانے کے لیے، حکومت کو شفافیت اور مسابقت کو فروغ دینا ہوگا۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کے ساتھ ساتھ، قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو بھی فروغ دینا ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف بجلی کی قیمتوں میں کمی آئے گی بلکہ ملک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سنہ 2015 کے بعد جو بھی نئے منصوبے شروع کیے گئے جن میں جوہری منصوبے، ڈیم، یا دیگر مُمالک کی مدد سے شروع کیے جانے والے منصوبے تمام کی مدد میں لیے جانے والے قرضے اور پھر ان پر لگنے والے سود کی وجہ سے حالات مُشکل ہوئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اب حکومت کو ان منصوبوں کی تکمیل کے لیے حاصل کردہ قرضے سود کے ساتھ واپس کرنے پڑ رہے ہیں۔ ’پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی قدر میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے حکومت کو اب اپنے قرضوں میں شرح سود میں اضافے کا سامنا ہے۔‘ اس سوال کے جواب میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ’ہم جو ایک کام کر سکتے ہیں یا جس کے کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ حکومت اُن قرضوں کی واپسی کی تاریخ میں اضافے کی کوشش کرے جن کی ادائیگی اُسے اس سال کرنی تھی۔‘ ایسا کرنے سے حکومت کو بہتر انداز میں منصوبہ بندی کے لے وقت مل جائے گا اور مُلکی معیشت بھی مستحکم ہو سکے گی
آخر میں، بجلی کی قیمتوں میں کمی کا حالیہ اعلان ایک مثبت قدم ہے، لیکن اس کی پائیداری اور تسلسل کے لیے حکومت کو مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ شفافیت، مسابقت اور قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری، یہ وہ عوامل ہیں جو پاکستان کے توانائی سیکٹر کو پائیدار اور سستا بنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو پرائیویٹائیز کرنا پرے گا۔ تاکہ رشوت کو کنٹرول کیا جاسکے۔ اس معاملے میں حکومت ایک مشکل میں ہے۔ ایک طرف تو یہ کیپسٹی چارجز پوری معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں، کیونکہ ٹیرف بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب حکومت پر لازم ہے کہ اس نے جس مدت کے لیے یہ معاہدے سائن کیے ہیں، اگر انھیں اس سے پہلے جبراً ختم کیا جاتا ہے تو وہ فارن ڈائیریکٹ انویسٹمنٹ (ایف ڈی آئی) اور کوئی بھی سرمایہ کار یہاں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پاور پلانٹس کا باقاعدگی سے آڈٹ کرے، تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ ان کی ڈیپینڈیبل کاپیسٹی کتنی ہے اور کیا یہ کیپسٹی چارجز لینے کے اہل بھی ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ، حکومت ان پاور پروڈیوسرز کو جلدی ریٹائر کر سکتی ہے اور ایشیائی ڈیویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کے انرجی ٹرانزیشن میکنزم کے ذریعے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو پائیدار توانائی پیدا کرنے والے بجلی گھروں میں تبدیل کر سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ڈیمانڈ بڑھائے اور یوٹیلائزیشن ریٹ بڑھائے۔ جتنی ڈیمانڈ بڑھے گی اتنے کیپسٹی چارجز یونٹ ٹرمز میں کم ہوتے جائیں گے۔