Showing posts with label استحصال، اسلام، قران، حدیث. Show all posts
Showing posts with label استحصال، اسلام، قران، حدیث. Show all posts

17 April, 2025

استحصال اور ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں


 استحصال اور ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں

استحصال کی تعریف

استحصال کا مطلب ہے کہ ایک شخص، گروہ، یا طبقہ دوسرے کی خدمات، قوتِ عمل، یا وسائل کو اپنے فائدے کے لیے غیر انصافی کے ساتھ استعمال کرے۔ یہ معاشی، سماجی، یا نفسیاتی طور پر ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر:
اقتصادی استحصال: کام کرنے والے لوگوں کو متناسب تنخواہ نہ دینا یا ان کی محنت کا ناانصاف فائدہ اٹھانا۔
اجتماعی استحصال: کسی کی نسل، جنس، مذہب، یا ذات کی بنیاد پر اس کو حقارت کا شکار بنانا۔
طبیعی استحصال: قدرت کے وسائل کو بے رحمی سے استعمال کرکے ماحولیاتی تباہی کرنا۔

 اگر استحصال ختم ہو تو کیا ہوگا؟
اگر انسان ایک دوسرے کا استحصال بند کردیں، تو یہ دنیا بالکل جنت بن سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے کچھ بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے:

اقتصادی نظام میں عدل و انصاف
- اگر معاشی استحصال ختم ہو جائے، تو ہر انسان کو اپنی محنت کے بدلے عادلانہ تنخواہ ملے گی۔
- غربت ختم ہو جائے گی، اور ہر انسان کو اپنی اور اپنے خاندان کی بنیادی ضروریات (کھانا، کپڑا، مکان) فراہم ہونے لگیں گے

قُرآن کی روشنی میں
"وَفِیۡ أَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ"  
(سورۃ الذاریات: 19)  
اس آیت میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کو اپنے مال میں دوسرے کا حق ہے۔ اگر یہ حق عطا کیا جائے، تو استحصال ختم ہو جائے گا۔

اجتماعی نظام میں برابری
- اگر نسل، جنس، مذہب، رنگ ، معذوری یا ذات کی بنیاد پر استحصال نہ ہو، تو لوگوں کے درمیان محبت اور اتحاد پیدا ہوگا۔
-  اجتماعی طبقاتی فرق ختم ہوں گے، اور ہر انسان کو اپنی صلاحیتوں کے بدلے برابر موقع فراہم ہوں گے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ریاستوں کا بنیاد ہے جس کی بنا پر آج بھی استحصال موجود ہے۔ انسان ایک دوسرے کا خون بہا رہا ہے۔

حدیث کی روشنی میں  
"کُلُّکُمْ بَنُو آدَمَ وَ آدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ"  
(ترمذی)  
یعنی ہر انسان آدم کی اولاد ہے، اور اس کی بنیاد تراب ہے۔ یہ حدیث یہ بتاتی ہے کہ تمام انسانوں میں برابری ہے۔ اس کے علاوہ خطبہ حجۃ الوداع اجتماعی نظام میں برابری کی عمدہ مثال ہے جس کو انسانی حقوق کا پہلا چارتر کہا جا تا ہے۔

ماحول کی حفاظت 
- اگر قدرتی وسائل کا استحصال ختم ہو جائے، تو ہم زمین کو صاف، ہوا کو پاک، اور پانی کو شدید آلودگی سے بچانے میں کامیاب ہوں گے۔  یہ انسانوں کے لیے ایک شاندار مستقبل کی ضمانت ہوگا

قُرآن کی روشنی میں  
"وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا" 
(سورۃ الأعراف: 56)  
یعنی زمین کو تباہ نہ کرو جب اسے درست کیا گیا ہے۔

حدیث کی روشنی میں
425 ما هذا السرف فقال أفي الوضوء إسراف قال نعم وإن كنت على نهر جار
(سنن ابن ماجه)
یعنی  اگر نہر کے کنارے بیٹھے ہو تو پانی ضائع نہ کرو

نفسیاتی استحصال کا خاتمہ
- اگر لوگ دوسرے کے جذبات کو استحصال کے ذریعے نہ زیر کرنے کی کوشش کریں، تو دوستی، محبت، اور رحم دوبارہ زندہ ہوں گے۔ انسان ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنا شروع کریں گے  اور معاشرہ میں ایک نئی ثقافتِ محبت پیدا ہوگی۔

 کیا دنیا واقعی جنت بن جائے گی؟
دنیا کو جنت بنانا ایک خواب  ہے، لیکن اس کے لیے ہر انسان کو اپنے آپ کو اندر سے بدلنا ہوگا۔ اسلام میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا جنت کا پردا ہے، لیکن یہ پردا اس وقت کھلے گا جب انسان ایک دوسرے کے حقوق کو پورا کرے گا۔

قُرآن کی روشنی میں  
"وَإِذۡ قَالَ رَبُّكَ لِلۡمَلَـٰٓئِكَةِ إِنِّى جَاعِلٌ فِى ٱلۡأَرۡضِ خَلِيفَةً"  
(سورۃ البقرہ: 30)  
یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ نے انسان کو زمین پر خلیفہ بنایا ہے۔ یعنی انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمین کو جنت بنائے۔

اگر انسان ایک دوسرے کا استحصال بند کردیں، تو دنیا واقعی جنت بن سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے اندر کی بدیوں، جیسے حسد، طمع، اور ظلم کو دور کرنا ہوگا۔ اسلام کی تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ انسان ایک دوسرے کے حقوق کو پورا کرے، اور اس طرح دنیا کو ایک بہترین مقام بنائے۔ 

آیت کی روشنی میں 
"وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ"  
(سورۃ النساء: 19)  
یعنی ایک دوسرے کے ساتھ اچھے سلوک کریں۔ اسی کے بعد دنیا جنت بن سکتی ہے۔

حدیث کی روشنی میں 
وإماطته الاذى عن الطريق صدقة 
 راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا بھی صدقہ ہے
 ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ہم صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ ہم جب کوئی چیز بناتے ہیں تو معذوری کے حامل افراد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جس سے ان کے راستے میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ اسلام ہمیں رکاوٹیں دور کرنے کا درس دیتا ہے جبکہ ہم غیرارادی طور پر ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں۔ اس معاملے میں ہم سے کوتاہی ہو جاتی ہے۔